1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سیاستبنگلہ دیش

بنگلہ دیش میں پرتشدد مظاہرے، تمام جامعات کی بندش کی ہدایت

17 جولائی 2024

بنگلہ دیش میں سرکاری نوکریوں کی تقسیم کے معاملے پر جاری پرتشدد مظاہروں کے نتیجے میں چھ افراد کی ہلاکت کے بعد حکومت نے جامعات کو اپنی تعلیمی سرگرمیاں معطل کرنے کی ہدایات جاری کی ہیں۔

https://p.dw.com/p/4iOxy
Studentenproteste in Bangladesch
تصویر: Habibur Rahman/IMAGO/ABACAPRESS

خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق حکام کی جانب سے یہ ہدایات بدھ کو جاری کی گئیں، جس کے بعد کئی یونیورسٹیوں نے فوری طور پر اپنی تعلیمی سرگرمیاں معطل کر دیں۔ تاہم کئی جامعات بشمول ڈھاکا یونیورسٹی فی الحال یہ طے نہیں کر پائی ہیں کہ ان ہدایات پر کیسے عمل کیا جائے۔ ڈھاکا یونیورسٹی ان پرتشدد مظاہروں کا ایک بڑا مرکز ہے۔

بنگلہ دیش: ملازمتوں میں کوٹہ سسٹم کے خلاف طلبہ کے پرتشدد مظاہرے

بنگلہ دیش کے 'بدنام زمانہ' جلاّد شاہ جہاں بھوئیاں چل بسے

بنگلہ دیش کے یونیورسٹی گرانٹ کمیشن نے تمام پبلک اور نجی جامعات کو ہدایت کی تھی کہ وہ تعلیمی سرگرمیاں معطل کر دیں اور طلبہ کی رہائش گاہیں خالی کرا لیں۔ واضح رہے کہ بنگلہ دیش کی جامعات قانونی طور پر خودمختار ہیں اور حکومتی ہدایات پر عمل کرنے کی پابند نہیں ہیں۔

حکام کے مطابق منگل کے روز ملک میں مختلف مقامات پر طلبہ مظاہرین، حکومت کے حامی طلبہ اورپولیس کے درمیان جھڑپوں میں کم از کم چھ افراد ہلاک ہو گئے۔ یہ پرتشدد مظاہرے دارالحکومت ڈھاکا کے نواحی علاقوں کے علاوہ جنوب مشرقی شہر چٹاگانگ اور شمالی علاقے رنگ پور میں ہو رہے ہیں۔

بنگلہ دیش میں طلبہ کا پرتشدد احتجاج جاری ہے
بنگلہ دیش میں طلبہ کا پرتشدد احتجاج جاری ہےتصویر: Zabed Hasnain Chowdhury/IMAGO/SOPA Images

گزشتہ ماہ طلبہ نے حکومت کی جانب سے سرکاری ملازمتوں کے لیے رائج کوٹا ختم کرنے کے مطالبے کے ساتھ ان مظاہروں کا آغاز کیا تھا۔ بنگلہ دیش میں 1971ء کی جنگِ آزادی میں شریک افراد کے اہل خانہ کے لیے سرکاری ملازمتوں میں تیس فیصد کوٹا مختص ہے، جب کہ طلبہ اس کوٹا سسٹم کے خاتمے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ پیر کے روز یہ مظاہرے تب پرتشدد ہو گئے جب ڈھاکا یونیورسٹی میں مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپوں کے نتیجے میں سو افراد زخمی ہوئے۔

پھر یہ احتجاجی لہر ڈھاکا کے نواح میں قائم جہانگیر نگر یونیورسٹی تک پہنچ گئی اور منگل تک یہ احتجاجی مظاہرے ملک کے کئی دوسرے علاقوں میں بھی پھیل گئے۔

اسی تناظر میں بدھ کو ڈھاکا یونیورسٹی میں پولیس کی بھاری نفری تعینات کی گئی جب کہ ڈھاکا اور دیگر اہم شہروں میں سڑکوں پر نیم فوجی دستوں نے گشت کیا۔

جھڑپوں میں اب تک چھ افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہو چکے ہیں
جھڑپوں میں اب تک چھ افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہو چکے ہیںتصویر: Sultan Mahmud Mukut/IMAGO/ZUMA Press Wire

یہ بات اہم ہے کہ سن 2018 میں ایک عدالتی حکم نامے پر کوٹاسسٹم کے تحت نوکریوں کی تقسیم کو عارضی طور پر روکا گیا تھا، لیکن گزشتہ ماہ بنگلہ دیش کی اعلیٰ عدلیہ نے یہ فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے کوٹا نظام دوبارہ بحال کر دیا تھا، جس کے بعد طلبہ نے احتجاج کا آغاز کر دیا۔

اس کوٹا نظام کے تحت خواتین، معذور افراد اور نسلی اقلیتوں کے لیے بھی ملازمتیں مختص ہیں، تاہم مظاہرین فقط 1971ء کی جنگ میں شریک افراد کے لیے اس کوٹے کے خاتمے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

مظاہریں کا کہنا ہے کہ اس کوٹے سے وزیر اعظم  حسینہ واجد کی جماعت عوامی لیگ کے لوگوں کو فائدہ پہنچایا جاتا ہے۔ یہ جماعت بنگلہ دیش کی پاکستان سے آزادیکی جنگ میں سرگرم تھی۔

حسینہ واجد کی مسلسل چوتھی فتح، وجہ اقتصادی ترقی یا سیاسی استحصال؟

 مظاہرین اپنی اس تحریک کو 'غیرسیاسی‘ قرار دیتے ہیں۔ تاہم بنگلہ دیشی وزیراعظم حسینہ واجد نے منگل کے روز کوٹاسسٹم کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ جنگ آزادی میں شریک افراد کا تعلق کسی بھی سیاسی جماعت سے ہو، وہ  اعلیٰ ترین تکریم کے مسحق ہیں۔ ڈھاکا میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم حسینہ واجد کا کہنا تھا، ''اپنے خوابوں کی زندگی کو ایک طرف رکھتے، اپنے خاندان، والدین اور سب کچھ تج کر کہ یہ لوگ جنگ میں شامل ہوئے۔‘‘

ع ت، م ا (اے پی)