1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بنگلہ دیش میں مسلم عالم کو سزائے موت

21 جنوری 2013

بنگلہ دیش میں جنگی جرائم کی ایک متنازعہ عدالت نے سابق ٹی وی میزبان اور جماعت اسلامی کے ایک رہنما کو سزائے موت سنا دی ہے۔ مولانا ابو الکلام آزاد پر1971ء کی جنگ کے دوران نسل کشی میں ملوث رہنے کا الزام تھا۔

https://p.dw.com/p/17O7j
تصویر: Reuters

جنگی جرائم کی سماعت کے لیے ملکی سطح پر حکومت کی طرف سے 2010ء میں  قائم کی جانے والی اس عدالت کو 'انٹرنیشنل کرائمز ٹریبیونل‘ کا نام دیا گیا ہے۔ اس ٹریبیونل پر یہ الزام بھی ہے کہ اس کا قیام سیاسی مقاصد کے لیے عمل میں لایا گیا تھا.

بنگلہ دیشی اٹارنی جنرل محبوب عالم نےاس عدالتی فیصلے کو تاریخی قرار دیتے ہوئے کہا کہ 40سال بعد آج عوام نے سکھ کا سانس لیا ہے۔ انہوں نے اس فیصلے کو انسانیت کی فتح قرار دیا۔

سزا پانے والے63 سالہ ابو الکلام آزادحزب اختلاف کی بڑی سیاسی پارٹی جماعت اسلامی کے لیڈر ہونے کے ساتھ ساتھ سرکاری اور نجی ٹیلی وژن چینلز پر دینی پروگراموں میں بھی حصہ لیتے رہے ہیں۔

اس وقت حزب اختلاف کے 11 رہنماؤں کے خلاف اسی طرز کے مقدمات زیرسماعت ہیں۔ ان میں سے 9 کا تعلق جماعت اسلامی جبکہ 2 کا تعلق بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی سے ہے۔

Kriegsverbrechertribunal verurteilt Abul Kalam Azad zum Tode
اس ٹریبیونل پر یہ الزام بھی ہے کہ اس کا قیام سیاسی مقاصد کے لیے عمل میں لایا گیا تھاتصویر: AFP/Getty Images

جماعت اسلامی اور بی این پی نے ان کیسز کو ’مضحکہ خیز اور سیاسی انتقام‘ قرار دیا ہے۔ انسانی حقوق کے حوالے سے کام کرنے والے اداروں نے عدالتی کارروائی میں موجود سقم اور قوانین میں موجود کمزوریوں پر اعتراضات اٹھائے ہیں۔

خبر رساں ادارے AFP سے بات کرتے ہوئے وکیل صفائی عبدالشکور خان ، جنہیں ٹریبیونل کی جانب سے  مقررکیا گیا تھا کا کہنا تھا "مولانا پر لگائے جانے والے الزامات بے بنیاد ہیں اور1971ءکی جنگ کے حوالے سے مرتب کی گئی کتابوں میں انہیں کبھی بھی پاکستان کا ساتھی قرار نہیں دیا گیا"۔

حکومتی وکیل شاہد الرحمان نےAFPسے گفتگو کے دوران کہا کہ مولانا آزاد پر ڈسٹرکٹ فرید پور کےجنوب مغرب میں واقع اپنے آبائی قصبے میں ایک درجن سے زائد ہندوؤں کے قتل کا الزام ہے۔ رحمان نے مزید کہا کہ ان میں سے چھ کو مولانا نے خود گولی مار کر ہلاک کیاتھا۔

 80کی دہائی میں مولانا آزاد خطیب کے طور پر ڈھاکا کی ایک بڑی جامعہ مسجد سے وآبستہ ہوئے۔ ان کے ٹیلی وژن پروگراموں کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ انہوں نے صوفیائے کرام کی تعلیمات سے متاثرمسلمانوں کو سعودی طرز کے وہابی مسلمانوں میں ڈھالنے میں اہم کردار اداکیا۔

آزاد، جوکہ ایک اسلامی فلاحی ادارہ بھی چلا رہے ہیں،گزشتہ برس اس وقت ہو گئے تھے جب اس ٹریبیونل نےان کے خلاف سماعت کا آغاز کیاتھا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ وہ اس وقت ملک سے باہر کہیں موجود ہیں۔

1971ء تک مشرقی پاکستان کہلانے والے اس ملک کو بنگلہ دیش بننے کے لیے ایک پرتشدد دور سے گزرنا پڑا تھا۔ موجودہ حکومت کا کہنا ہے کہ تیس لاکھ سے زائد بنگالی اس دوران ہلاک ہوئے جن میں سے اکثریت کو جماعت اسلامی کے مقامی لوگوں نے پاکستانی سیکیورٹی فورسزکے ساتھ مل کر مارا۔

وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد کی موجودہ حکومت کی جانب سے مارچ 2010ء میں قا ئم کیے گئے اس ٹریبیونل کو اس کے قیام سے لیکر اب تک مسلسل تنقید کا سامنا ہے۔

گزشتہ ماہ اس ٹریبیونل کی سربراہی کرنے والے جج اپنی ایک گفتگو انٹرنیٹ پر سامنےآنے کے بعد مستعفی ہو گئے تھے۔ اس گفتگو میں ان پر جلد فیصلے کرنے کے لیے حکومت کی جانب سے دباؤ ڈالا گیا تھا۔ اس واقعے نے اس ٹریبیونل کی شفافیت اورغیر جانبداری پر مزید سوالات اٹھائےتھے۔ ڈھاکا حکومت کا کہنا ہے کہ سماعت شفاف اور بین الاقوامی معیارات کے مطابق ہورہی ہے۔

zb/aba (AFP)