1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
لائیو
سیاستبنگلہ دیش

بنگلہ دیش میں محمد یونس کی سربراہی میں عبوری حکومت قائم

وقت اشاعت 8 اگست 2024آخری اپ ڈیٹ 8 اگست 2024

نوبل انعام یافتہ معیشت دان ڈاکٹر محمد یونس کا کہنا تھا کہ ان کی پہلی ترجیح ملک میں امن و امان کا قیام ہے۔ بنگلہ دیشی صدر نے ملک کی عبوری حکومت کے سربراہ سے حلف لیا۔

https://p.dw.com/p/4jEwF
 بنگلہ دیشی صدر نے ملک کی عبوری حکومت کے سربراہ سے حلف لیا
بنگلہ دیشی صدر نے ملک کی عبوری حکومت کے سربراہ سے حلف لیاتصویر: MUNIR UZ ZAMAN/AFP
آپ کو یہ جاننا چاہیے سیکشن پر جائیں

آپ کو یہ جاننا چاہیے

  • بنگلہ دیش میں عبوری حکومت نے حلف اٹھا لیا
  • محمد یونس ڈھاکہ پہنچ گئے 
  • بنگلہ دیش نے 'دوسری مرتبہ آزادی‘ حاصل کر لی، محمد یونس 

 

بنگلہ دیش کی سترہ رکنی عبوری حکومت میں کون کون شامل؟ سیکشن پر جائیں
8 اگست 2024

بنگلہ دیش کی سترہ رکنی عبوری حکومت میں کون کون شامل؟

 سولہ دیگر شخصیات کو بھی عبوری کابینہ میں شامل کیا گیا ہے، جن میں بنیادی طور پر سول سوسائٹی سے تعلق رکھنے والے افراد شامل ہیں
سولہ دیگر شخصیات کو بھی عبوری کابینہ میں شامل کیا گیا ہے، جن میں بنیادی طور پر سول سوسائٹی سے تعلق رکھنے والے افراد شامل ہیں

نوبل انعام یافتہ ماہر اقتصادیات محمد یونس نے آج جمعرات کو بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کے سربراہ کے طور پر اپنے عہدے کا حلف اٹھا لیا۔ سابقہ وزیر اعظم شیخ حسینہ کی جانب سے پیر کے روز مستعفی ہو کر بھارت فرار ہو جانے کے تین دن بعد عبوری حکومت کا قیام عمل میں آ گیا۔
محمد یونس کے لیے اب اہم کام بنگلہ دیش میں امن کی بحالی اور نئے انتخابات کی تیاری ہے۔ بنگلہ دیش کے صدر محمد شہاب الدین نے ڈھاکہ کے صدارتی محل میں غیر ملکی سفارت کاروں، سول سوسائٹی کے نمائندوں، اعلیٰ کاروباری شخصیات اور سابق اپوزیشن پارٹی کے اراکین کی موجودگی میں محمد یونس سے چیف ایڈوائزر کے عہدے کا حلف لیا،  جو کہ وزارت عظمیٰ کے مساوی عہدہ ہے۔
تقریب حلف برداری میں شیخ حسینہ واجد کی پارٹی کا کوئی نمائندہ موجود نہیں تھا۔ سولہ دیگر شخصیات کو بھی عبوری کابینہ میں شامل کیا گیا ہے، جن میں بنیادی طور پر سول سوسائٹی سے تعلق رکھنے والے افراد اور شیخ حسینہ کے خلاف احتجاج کی قیادت کرنے والے  دو طلبا رہنما بھی شامل ہیں۔ محمد یونس نے عبوری کابینہ کے ارکان کا انتخاب اس ہفتے طلبا رہنماؤں، سول سوسائٹی کے نمائندوں اور فوج کے درمیان ہونے والی بات چیت میں کیا تھا۔
ش ر⁄ م م (اے پی) 

مجھے آئی ایس آئی پر شبہ ہے، سجیب واجد

https://p.dw.com/p/4jGMe
بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کے سربراہ کا اقتصادی وژن کیا ہے؟ سیکشن پر جائیں
8 اگست 2024

بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کے سربراہ کا اقتصادی وژن کیا ہے؟

  بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کے سربراہ ڈاکٹر محمد یونس
بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کے سربراہ ڈاکٹر محمد یونستصویر: Abdul Saboor/REUTERS


نوبل انعام یافتہ ماہر اقتصادیات محمد یونس جمعرات کو بنگلہ دیش کی نگران حکومت کے سربراہ کا عہدہ  ایک ایسے وقت پر سنبھال رہے ہیں،  جب ملک کو سخت اقتصادی چیلنجوں کا سامنا ہے۔ آئیے ان کے معاشی وژن پر ایک نظر ڈالتےہیں۔
سماجی کاروبار
ڈاکٹر محمد یونس ایسے ’سماجی کاروباروں‘ کی وکالت کرتے ہیں، جو صرف دولت پیدا کرنے کے بجائے مسائل کو حل کرتے ہیں اور جن سے حاصل کیے جانے والےکسی بھی منافع کو اس کاروبار میں بہتر اقدار لانے کے لیے دوبارہ اسی کاروبار میں لگایا جاتا ہے۔ یونس مائیکرو فنانس قرض دہندہ گرامین بینک کے بانی ہیں اوریہ بینک اسی خیال سے جڑا ہوا تھا۔  بنگلہ دیش میں ترقی کو فروغ دینے اور غربت کے خاتمے میں مدد کرنے کے لیے اس بینک کی بطور ادارہ تعریف کی گئی۔
مائیکرو فنانس میں ان کے اولین کام کے لیے محمد یونس کو 2006 میں امن کے نوبل انعام سے نوازا گیا۔ ان کے اس اقدام کو دوسرے ترقی پذیر ممالک میں نقل کیا گیا اور وہ ’’غریبوں کے لیے بینکر‘‘ کے نام سے مشہور ہوئے۔
غربت
محمد یونس کا ماننا ہے کہ غربت ایک ’’خطرہ‘‘ہے اور دہشت گردی سے لے کر اسمگلنگ تک کے مسائل کا سبب بنتا ہے۔  خیال رہے کہ  2022 میں بنگلہ دیش کی 18 فیصد سے زیادہ آبادی غربت سے دوچار تھی۔ یونس نے 2006 میں Nobelprize.org کو بتایا تھا، ’’آپ لوگوں کو غریب چھوڑ کر خوشی سے نہیں رہ سکتے ... وہ مایوس کن صورتحال میں ہیں۔ جب آپ مایوس ہوتے ہیں، تو آپ امن کو خراب کرتے ہیں۔‘‘ اسی مسئلے کو حل کرنے کے لیے وہ اپنے مائیکرو کریڈٹ سسٹم کے ذریعے غریبوں میں ’’صحیح مالیاتی اصول‘‘ قائم کرنا چاہتے تھے۔
عالمگیریت
محمد یونس ’’ملٹی نیشنل سوشل بزنسز‘‘ کا مطالبہ کرتے ہیں، جو یا تو غریبوں کو ملکیت کا حق دیتے ہیں یا پھر اپنا منافع غریب ممالک میں رکھتے ہیں۔ جب محمد یونس نے 2007 میں سیاست میں قدم رکھا، تو انہوں نے چٹاگانگ بندرگاہ کو براعظمی بندرگاہ بنانے کا مشورہ دیا تھا۔ اس منصوبے کے ناقدین کا کہنا تھا کہ اس سے قومی سلامتی، ملازمتوں اور ماحول کو خطرات لاحق ہو سکتے تھے۔
محمد یونس نے گزشتہ ہفتے انڈین ایکسپریس اخبار کے ساتھ ایک انٹرویو میں ایک ’’عالمی تہذیب‘‘ کے بارے میں بھی بات کی، جس میں انہوں نے بھارت کے اس بیان کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا کہ بنگلہ دیش میں بغاوت ایک ’’اندرونی معاملہ‘‘ ہے۔  یونس نے خبردار کرتے ہوئے کہا تھا کہ بنگلہ دیش میں افراتفری پڑوسیوں تک پھیل سکتی ہے۔ انہوں نے کہا تھا، ’’سفارت کاری میں یہ کہہ دینے سے کہ یہ ان کا اندرونی معاملہ ہے، کہیں زیادہ بڑا ذخیرہ الفاظ موجود ہے۔‘‘
خواتین
محمد یونس مستقبل کی تعمیر میں خواتین کے کردار پر زور دیتے ہیں اور ان کی دیکھ بھال کرنے والے متعدد بین الاقوامی کمیشنوں کا حصہ رہے ہیں۔ بنگلہ دیش میں اس وقت خواتین کی تعداد مردوں سے زیادہ ہے اور گرامین بینک کی 97 فیصد اراکین خواتین ہیں۔ یونس نے 2012 میں ہارورڈ بزنس ریویو کو بتایا تھا، ’’خواتین اپنے پیسے کے ساتھ مستقبل کے لیے کچھ بنانا چاہتی ہیں۔ مرد اسے چیزوں سے لطف اندوز ہونے پر خرچ کرنا چاہتے ہیں۔‘‘
ش ر⁄ م م 
 

https://p.dw.com/p/4jGK3
شیخ حسینہ اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کریں گی، بھارت سیکشن پر جائیں
8 اگست 2024

شیخ حسینہ اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کریں گی، بھارت

شیخ حسینہ  نے اس سال جون میں نئی دہلی میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی سے ملاقات کی تھی
شیخ حسینہ نے اس سال جون میں نئی دہلی میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی سے ملاقات کی تھیتصویر: Manish Swarup/AP/picture alliance

بھارتی وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ یہ بنگلہ دیش کی  سابقہ وزیر اعظم  پر منحصرہے کہ وہ اپنے مستقبل کے بارے میں کیا فیصلہ کرتی ہیں۔  جمعرات کو  وزرات خارجہ کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ شیخ حسینہ  پر ہے کے وہ اپنے مستقبل کے منصوبوں کے بارے میں ’’چیزوں کو آگے بڑھائیں۔‘‘ بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ اس معاملے پر کوئی تازہ پیش رفت نہیں ہے۔ وزارت خارجہ کے ترجمان رندھیر جیسوال نے کہا، ’’ان (حسینہ)کے منصوبوں کے بارے میں بات کرنا مناسب نہیں ہے۔‘‘

وزیر خارجہ سبرامنیم جے شنکر نے جمعرات کو ایکس پر ایک پوسٹ میں کہا کہ انہوں نے برطانوی وزیر خارجہ  سے بات کی ہے اور ’’بنگلہ دیش اور مغربی ایشیا کی صورتحال‘‘ پر تبادلہ خیال کیا ہے۔  شیخ حسینہ پیر کو وزیر اعظم کے عہدے سے استعفیٰ دینے کے مطالبے پر پرتشدد مظاہروں کے بعد بھارت فرار ہوگئیں اور اس کے بعد سے وہ نئی دہلی کے قریب بھارتی فضائیہ کے ایک اڈے پر پناہ لیے ہوئے ہیں۔
ش ر⁄ ع ب (روئٹرز)
 

https://p.dw.com/p/4jFUI
بنگلہ دیشی سیاست میں حصہ لینا جاری رکھیں گے، شیخ حسینہ کے بیٹے کا عزم سیکشن پر جائیں
8 اگست 2024

بنگلہ دیشی سیاست میں حصہ لینا جاری رکھیں گے، شیخ حسینہ کے بیٹے کا عزم

وزیر اعظم شیخ حسینہ کے بیٹے سجیب واجد جوئے
وزیر اعظم شیخ حسینہ کے بیٹے سجیب واجد جوئےتصویر: DW

بنگلہ دیش کی سابقہ وزیر اعظم شیخ حسینہ کے بیٹے سجیب واجد جوئے نے کہا ہے کہ  ان کا خاندان اور جماعت عوامی لیگ بنگلہ دیشی سیاست میں حصہ لینا جاری رکھیں گے۔ بدھ کے روز سامنے آنے والا ان کا یہ موقف اس سابقہ بیان کے منافی ہے، جو انہوں نے اپنی والدہ کے استعفے کے بعد دیا تھا۔  پیر کے روز جوئے نے کہا تھا کہ ان کی والدہ شیخ حسینہ استعفیٰ دینے کے بعد سیاست میں واپس نہیں آئیں گی۔
شیخ حسینہ کے بیٹے جوئے نے، جو اپنی والدہ کے مشیر کے طور پر بھی کام کرتے ہیں، بدھ کو ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں کہا کہ ان کا خاندان سیاست میں واپس آئے گا اور عوامی لیگ کے رہنماؤں اور اراکین پر حملوں کے بعد ہمت نہیں ہاری جائے گی۔
بہت سے لوگ جوئے کو ایک موروثی سیاست میں اپنی والدہ کے جانشین کے طور پر دیکھتے ہیں، جو طویل عرصے تک اس جنوبی ایشیائی ملک کی سیاست پر حاوی رہیں۔   اپنے فیس بک پیج پر پوسٹ کیے گئے ایک ویڈیو پیغام میں جوئے نے پارٹی کارکنوں پر زور دیا کہ وہ اٹھ کھڑے ہوں۔ انہوں نے کہا، ’’آپ اکیلے نہیں ہیں، ہم یہاں ہیں، بنگ بندھو کا خاندان کہیں نہیں گیا۔‘‘
شیخ حسینہ کے والد اور بنگلہ دیش کی آزادی کے رہنما شیخ مجیب الرحمان کو بنگلہ دیش میں بنگ بندھو یعنی ’’بنگال کا دوست‘‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ جوئے کا کہنا تھا، ’’اگر ہم ایک نیا بنگلہ دیش بنانا چاہتے ہیں، تو یہ عوامی لیگ کے بغیر ممکن نہیں۔‘‘ انہوں  نے مزید کہا، ’’عوامی لیگ بنگلہ دیش کی سب سے پرانی، جمہوری اور سب سے بڑی جماعت ہے۔‘‘

شیخ حسینہ، ایک سورج جو ڈوب گیا


جوئے کا کہنا تھا، ’’عوامی لیگ مری نہیں ہے۔ عوامی لیگ کو ختم کرنا ممکن نہیں ہے۔ ہم نے کہا تھا کہ ہمارا خاندان اب سیاست میں نہیں آئے گا۔ تاہم اپنے رہنماؤں اور کارکنوں پر حملوں کو دیکھتے ہوئے ہم ہار نہیں مان سکتے۔‘‘
خیال رہے کہ ڈھاکہ کے رہائشی جمعرات کی رات تک ڈکیتیوں کی اطلاعات پر  لاٹھیوں، لوہے کی سلاخوں اور تیز دھار ہتھیار وں سے لیس ہو کر اپنے محلوں کی حفاظت کرتے رہے۔ شہر کے مختلف علاقوں میں کمیونٹیز نے مساجد میں لاؤڈ اسپیکر استعمال کرتے ہوئے لوگوں کو آگاہ کیا کہ ڈکیتی کی وارداتیں ہو رہی ہیں، کیونکہ پولیس ڈیوٹی پر موجود نہیں۔
اسی دوران فوج نے مدد کے ضرورت مند شہریوں کے لیے ٹیلی فون ہاٹ لائن نمبر بھی مشتہر کر دیے ہیں۔
ش ر⁄ م م (اے پی) 
 

https://p.dw.com/p/4jFFA
امن و امان کا قیام پہلی ترجیح ہے، محمد یونس سیکشن پر جائیں
8 اگست 2024

امن و امان کا قیام پہلی ترجیح ہے، محمد یونس

محمد یونس ڈھاکہ پہنچنے کے بعد میڈیا سے بات چیت کرت ہوئے
محمد یونس ڈھاکہ پہنچنے کے بعد میڈیا سے بات چیت کرت ہوئےتصویر: Munis uz Zaman/AFP

بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کے نامزد سربراہ اور نوبل انعام یافتہ معیشت دان محمد یونس آج جمعرات کے روز فرانسیسی دارالحکومت پیرس سے واپس وطن واپس پہنچ گئے۔ توقع ہے کہ وہ آج ہی کے دن اپنا عہدہ بھی سنبھالیں گے۔ یونس جمعرات کی سہ پہر ڈھاکہ کے حضرت شاہ جلال بین الاقوامی ہوائی اڈے پر پہنچے تو ملکی بری فوج کے سربراہ جنرل وقار الزمان نے ان کا استقبال کیا۔ اس موقع پر بحریہ اور فضائیہ کے سربراہان بھی موجود تھے۔
سابقہ وزیر اعظم شیخ حسینہ کے خلاف بغاوت کی قیادت کرنے والے کچھ طلبہ رہنما بھی ان کے استقبال کے لیے ہوائی اڈے پر موجود تھے۔  ان طلبہ نے ہی محمد یونس کا نام ملک کے  عبوری رہنما کے طور پر  صدر کو تجویز کیا تھا، جو اس وقت آئین کے تحت چیف ایگزیکٹو کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ وطن آمد کے فوری بعد محمد یونس کا کہنا تھاکہ ان کی ترجیح امن بحال کرنا ہو گی۔
ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے محمد یونس نے کہا، ’’بنگلہ دیش ایک خاندان ہے۔ ہمیں اسے متحد کرنا ہوگا۔ اس کا بے پناہ امکان ہے۔‘‘ انہوں نے سب پر زور دیا کہ وہ تشدد کو روکیں اور وعدہ لیا کہ  کسی کے خلاف کسی بھی قسم کے جابرانہ اقدامات کا سہارا نہیں لیا جائے گا۔ یونس کی بحفاظت آمد یقینی بنانے کے لیے ہوائی اڈے پر سخت حفاظتی انتظامات کیے گئے تھے، کیونکہ پیر کو شیخ حسینہ کی اقتدار سے علیحدگی کے بعد بھی ملک کو بدامنی کا سامنا ہے۔ 
بنگلہ دیشی صدر محمد شہاب الدین جمعرات کی شب عبوری سربراہ حکومت کی حلف برداری کی تقریب کا انعقاد کریں گے، جب کہ محمد یونس اپنی نئی کابینہ کا اعلان بھی کریں گے۔ ڈھاکہ کے لیے روانہ ہونے سے قبل پیرس میں  بھی محمد  یونس نے بنگلہ دیش میں ملک کے مستقبل پر کشیدگی کے درمیان عوام سے پرسکون رہنے کی اپیل کی۔ 
ش ر⁄ ع ب (اے پی)
 

https://p.dw.com/p/4jExu