1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سیاستبنگلہ دیش

فوج کی قیادت یا حمایت والی حکومت قبول نہیں، بنگلہ دیشی طلبہ

6 اگست 2024

بنگلہ دیش میں طلبہ رہنماؤں نے کہا کہ وہ فوج کی قیادت والی کوئی حکومت قبول نہیں کریں گے۔ ادھر سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ ملک سے فرار ہونے کے بعد کسی مغربی ملک میں سیاسی پناہ کے انتظار میں فی الحال بھارت میں قیام پذیر ہیں۔

https://p.dw.com/p/4j97Q
آج منگل کو کسی بھی وقت نئی حکومت کے قیام کا اعلان ہو سکتا ہے
آج منگل کو کسی بھی وقت نئی حکومت کے قیام کا اعلان ہو سکتا ہےتصویر: Munir Uz Zaman/AFP/Getty Images

شیخ حسینہ کے استعفٰی اور ملک سے فرار ہونے کے بعد بنگلہ دیش میں نئی عبوری حکومت کے قیام کے اعلان کا انتظار ہے۔ امید کی جارہی ہے کہ آج منگل کو کسی بھی وقت نئی حکومت کے قیام کا اعلان ہو سکتا ہے۔

بنگلہ دیش کے صدر محمد شہاب الدین نے کل دیر رات نئی حکومت کی تشکیل کے حوالے سے اہم میٹنگیں کیں۔ ان میں آرمی چیف، برّی اور بحری افواج کے سربراہان نیز اپوزیشن جماعت بی این پی اور جماعت اسلامی سمیت متعدد اپوزیشن جماعتوں کے اعلیٰ رہنما موجود تھے۔ آرمی چیف وقار الزماں آج دوپہرکو احتجاجی طلبہ رہنماؤں سے ملاقات کریں گے۔

طلبہ رہنماؤں نے نوبل امن انعام یافتہ محمد یونس کو عبوری حکومت کا سربراہ بنانے کا مطالبہ کیا ہے
طلبہ رہنماؤں نے نوبل امن انعام یافتہ محمد یونس کو عبوری حکومت کا سربراہ بنانے کا مطالبہ کیا ہےتصویر: Rehman Asad/AFP/Getty Images

محمد یونس کو عبوری سربراہ بنانے کا مطالبہ

شیخ حسینہ کی حکومت کے خلاف احتجاجی تحریک چلانے والے رہنماؤں نے فیس بک پر ایک ویڈیو جاری کرکے کہا ہے کہ وہ فوجی حکومت کسی بھی صورت میں قبول نہیں کریں گے۔ انہوں نے نوبل امن انعام یافتہ محمد یونس کو عبوری حکومت کا سربراہ بنانے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔

بنگلہ دیشی وزیر اعظم شیخ حسینہ نے استعفیٰ دے دیا، فوجی حکام

بنگلہ دیش میں طلبا کا احتجاج ختم، انٹرنیٹ سروسز بحال

احتجاجی تحریک کے کوارڈینیٹر ناہید اسلام نے اپنے بیان میں کہا،" کوئی بھی ایسی حکومت ہمیں قابل قبول نہیں ہوگی جس کی سفارش ہم نے نہ کی ہو۔ ہم آرمی کی حمایت والی یا آرمی کی قیادت والی کوئی بھی حکومت قبول نہیں کریں گے۔"

طلبہ رہنما نے محمد یونس کو عبوری حکومت کا رہنمامقرر کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا،" محمد یونس سے ہم لوگوں کی بات چیت ہوئی ہے اور وہ ہماری درخواست پر یہ ذمہ داری قبول کرنے پر رضامند ہوگئے ہیں۔"

ملک میں مائیکرو فائنانسنگ کا کامیاب تجربہ کرنے والے محمد یونس کو سن 2006 میں امن کے نوبل انعام سے نوازا گیا تھا۔ تاہم شیخ حسینہ کی حکومت میں ان پر بدعنوانیوں کے الزامات بھی عائد کیے گئے اور ان کے خلاف مقدمات بھی چلائے گئے۔ محمد یونس تاہم ان الزامات کی تردید کرتے ہیں اور اسے سیاسی انتقام قرار دیتے ہیں۔

ناہید اسلام نے مزید کہا کہ طلبہ حکومت کے دیگر عہدیداروں کے ناموں کا اعلان جلد ہی کریں گے اور ان کی پسند کو نظر انداز کرنا موجودہ قیادت کے لیے مشکل چیلنج ہو گا۔

شیخ حسینہ بھارت کی قریبی دوست رہی ہیں
شیخ حسینہ بھارت کی قریبی دوست رہی ہیںتصویر: Manish Swarup/AP/picture alliance

شیخ حسینہ سیاسی پناہ کی منتظر

بنگلہ دیش سے فرار ہونے کے بعد سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ فی الحال بھارت میں ہیں۔ انہیں دارالحکومت دہلی سے تقریباً 25 کلومیٹر دور بھارتی فضائیہ کے ہنڈن ایئر بیس پر رکھا گیا ہے۔

میڈیا رپورٹوں کے مطابق بھارتی حکومت نے انہیں عارضی قیام کی اجازت دے دی ہے۔اور بھارت کسی یورپی ملک میں انہیں سیاسی پناہ حاصل کرنے میں تمام ممکنہ لاجسٹیکل سپورٹ فراہم کرے گا۔

بھارت کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوبھال نے کل پیر کے روز ہنڈن میں شیخ حسینہ سے ملاقات کی۔ انہوں نے بعد میں وزیر اعظم نریندر مودی سے ملاقات کرکے اپنی بات چیت کی تفصیلات سے انہیں آگاہ کیا۔ دوسری طرف بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے بھی وزیر اعظم مودی سے ملاقات کی۔

اس دوران آج وزیر اعظم کی سکیورٹی سے متعلق کابینہ کمیٹی کی میٹنگ ہوئی۔ بعد میں وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے کل جماعتی میٹنگ طلب کی اور بنگلہ دیش کی نئی پیش رفت پر حکومت کے موقف سے آگاہ کیا۔

حسينہ واجد ملک سے فرار، فوجی چيف کا عوام سے خطاب

شیخ حسینہ کے بیٹے نے کیا کہا؟

شیخ حسینہ کے بیٹے امریکہ میں مقیم سجیب واجد جوئے نے بھارتی نیوز چینل این ڈی ٹی وی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا کہ ان کی والدہ وطن چھوڑنا نہیں چاہتی تھیں لیکن خاندان کے اصرار پر انہیں ایسا کرنا پڑا۔

انہوں نے کہا،" وہ ملک میں ہی رہنا چاہتی تھیں، وہ کسی بھی صورت میں ملک چھوڑنا نہیں چاہتی تھیں۔ لیکن ہم لوگوں نے اصرار کیا کہ ان کا وہاں رہنا محفوظ نہیں ہے۔ ہمیں ان کی زندگی کی فکر تھی۔ اس لیے انہیں وطن چھوڑنے پر آمادہ کرلیا۔"

شیخ حسینہ لندن میں سیاسی پناہ لینا چاہتی ہیں اور اس سلسلے میں متعلقہ حکومتوں کے درمیان بات چیت چل رہی ہے۔ تاہم ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ آیا برطانیہ انہیں سیاسی پناہ دینے کے لیے تیار ہوجا ئے گا۔

ج ا/ ص ز (اے پی، اے ایف پی، روئٹرز)