بنگلہ دیش : باغیوں کے خلاف اقدام قتل کامقدمہ درج ہو گا
1 مارچ 2009بنگلہ دیشی حکام نے کہا ہے کہ وہ بغاوت میں شریک بنگلہ دیش رائفلز نامی سرحدی محافظوں کے قریبا ایک ہزار اہلکاروں پراقدام قتل کا مقدمہ چلائیں گے۔ گزشتہ ہفتے ان محافظوں کی طرف سے شروع ہونے والی بغاوت اگرچہ ختم ہو چکی ہےتاہم ابھی بھی تقریبا ستر فوجی اہلکار لاپتہ بتائے جا رہے ہیں جبکہ تقریبا اتنوں کی ہی نعشیں برآمد ہو چکیں ہیں۔ اس دوران درجنوں شہری بھی ہلاک کئے گئے۔
سرحدی محافظوں نے ڈھاکہ میں اپنے صدر دفتر سے بغاوت شروع کی تھی اوراسی جگہ سے کئی اجتماعی قبریں دریافت کی گئیں جن میں سے درجنوں فوجیوں کی لاشیں ملیں۔ حکام نے بتایا کہ مذکورہ قبریں بارڈر گارڈز کے کمپاؤنڈ سے ملی ہیں جن کو اچھی طرح چھپایا گیا تھا۔
یاد رہے کہ بعض سرحدی فوجیوں کی بغاوت کے بعد جمعے کے روز ایک اجتماعی قبر دریافت کی گئی تھی جس میں اٹھاون فوجیوں کی لاشیں موجود تھیں۔ بنگلہ دیشی افواج اس وقت بھی درجنوں گمشدہ سپاہیوں کی تلاش میں ہیں۔
دریں اثنا بنگلہ دیش میں شیخ حسینہ کی حکومت نے باغی فوجیوں کے لیے عام معافی کے اپنے فیصلے پر نظرِ ثانی کرتے ہوئے کہا ہے کہ بغاوت کرنے والے فوجیوں کو سزا دی جائے گی۔ بنگلہ دیشی فوج کے سربراہ نے بھی شیخ حسینہ واجد کی حکومت کو اپنی بھرپور حمایت کی یقین دہانی کروائی ہے۔ لیفٹیننٹ جنزل ایم اے مبین نے بنگلہ دیشی ٹی وی پر اپنے خطاب میں کہا کہ ’بنگلہ دیش رائفلز‘ کے اقدامات کے لیے کوئی معافی نہیں ہے اور یہ کہ ان کو جلد اور مثالی سزا دی جائے گی۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’شہداء‘ کو سرکاری اعزازات کے ساتھ سپردِ خاک کیا جائےگا۔
دریں اثناء بنگلہ دیشی اقواج سے تعلق رکھنے والے بعض افسران کا کہنا ہے کہ بغاوت کے بعد بنگلہ دیشی حکومت کو باغیوں سے بزور طاقت نمٹنا چاہیےتھا جس سے بہت سے فوجیوں کی جان بچ سکتی تھی۔ ابتداء میں حکومت کی جانب سے باغیوں کو عام معافی دینے کے اعلان کی مذمت کی گئی ہے تاہم وزیراعظم شیخ حسینہ نے کہا ہے کہ کسی بھی شخص کو کسی کو قتل کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔
بغاوت کے بعد اب تک دو سو باغی فوجی گرفتار کرلیے گئے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ مذکورہ بغاوت تنخواہوں میں کمی اور حالات کی خرابی کی بنا پر کی گئی تھی مگر بعض مبصرین اس کو سوچی سمجھی بغاوت قرار دے رہے ہیں۔ اس واقعے کے بعد بنگلہ دیش میں جمعے کی رات سے تین دن کے قومی سوگ کا اعلان بھی کیا گیا۔