1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بنگلہ ديش ميں اہم اپوزيشن رہنما زير حراست، ملک گير ہڑتال

12 مارچ 2013

بنگلہ ديشی دارالحکومت ڈھاکا ميں پير کے روز اپوزيشن اتحاد کے ايک اہم رہنما اور چند ديگر ليڈران کو زير حراست لے ليا گيا۔ دوسری جانب بنگلہ ديش نيشنلسٹ پارٹی نے آج بروز منگل ملک گير ہڑتال کا اعلان کر رکھا ہے۔

https://p.dw.com/p/17vHC
تصویر: Reuters

جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کی ڈھاکا سے موصولہ ايک رپورٹ کے مطابق مقامی پوليس نے گزشتہ روز بنگلہ ديش نيشنلسٹ پارٹی کے قائم مقام سيکرٹری جنرل مرزا فخرالسلام عالمگير سميت اپوزيشن کے چند ديگر حاميوں کو زير حراست لے ليا۔ مقامی پوليس افسر مہدی حسن کے بقول ان افراد کو عوام کے درميان گھبراہٹ پيدا کرنے کے علاوہ چھوٹی نوعيت کے بم دھماکے کرانے اور مظاہروں کے درميان گاڑيوں کو نذر آتش کرنے کے الزامات ميں زير حراست ليا گيا ہے۔ حسن کے مطابق پارٹی کے جوائنٹ سيکرٹری راہول کبير رضوی کو بھی زير حراست ليا گيا ہے۔

ملکی ٹيلی وژن پر نشر کردہ مناظر ميں پوليس کو ڈھاکا ميں قائم پارٹی کے ہيڈ کوارٹرز ميں گھستے ہوئے اور پھر زير حراست سياستدانوں کو پوليس کی گاڑيوں ميں منتقل کرتے ہوئے دکھايا گيا ہے۔

اپوزنشن رہنماؤں کو حراست ميں لينے کے عمل سے کچھ ہی لمحات قبل مرزا فخرالسلام عالمگير نے ’ہلاکتوں اور اپوزيشن اہلکاروں کے خلاف حکومت کی ایماء پر کيے جانے والے مظالم‘ کے احتجاج ميں آج بروز منگل ملک گير ہڑتال کا اعلان کيا تھا۔ اس ہڑتال کا مقصد ملک ميں جاری پر تشدد واقعات اور سياسی افراتفری کے دوران ہونے والی ہلاکتوں کے خلاف احتجاج کرنا بتايا گيا ہے۔

اس سے قبل پير کے روز بھی مظاہروں کا سلسلہ جاری رہا۔ مظاہرين کو منتشر کرنے کے ليے پوليس نے آنسو گيس کے علاوہ ربڑ کی گوليوں اور واٹر کينن کا بھی استعمال کيا۔

BNP کے قائم مقام سيکرٹری جنرل مرزا فخرالسلام عالمگير
BNP کے قائم مقام سيکرٹری جنرل مرزا فخرالسلام عالمگيرتصویر: Imago

واضح رہے کہ بنگلہ ديش ميں پر تشدد مظاہروں کا يہ سلسلہ اس وقت شروع ہوا جب گزشتہ مہينے کی 28 تاريخ کو بنگلہ ديش نيشنلسٹ پارٹی کی اتحادی پارٹی جماعت اسلامی کے نائب صدر 73 سالہ دلاور حسين سيدی کو سن 1971 کی جنگ آزادی کے دوران جنگی جرائم ميں مجرم قرار ديے جانے پر سزائے موت سنا دی گئی تھی۔ اس پيش رفت کے بعد جماعت اسلامی کے حاميوں اور سکيورٹی اہلکاروں کے درميان ہونے والے تصادم ميں اب تک 67 افراد لقمہ اجل بن چکے ہيں جبکہ متعدد ديگر زخمی بھی ہوئے ہيں۔ اس کے علاوہ تشدد کی اس لہر ميں کئی ملکی اثاثوں کو نقصانات بھی پہنچے ہيں۔

بنگلہ ديشی وزير اعظم شيخ حسينہ واجد نے 2010ء ميں جنگی جرائم کا ايک ٹريبيونل قائم کيا تھا تاکہ 1971ء ميں پاکستان کے خلاف لڑی جانے والی جنگ آزادی کے دوران پاکستانی افواج کی جانب سے کيے جانے والے مظالم ميں ساتھ دينے والے مقامی افراد کو انصاف کے کٹہرے ميں لایا جا سکے۔ بنگلہ ديش کا کہنا ہے کہ اس نو ماہ طويل جنگ کے دوران تين ملين بنگلہ ديشی مارے گئے تھے جبکہ دو لاکھ کے قريب عورتوں کو جنسی زيادتی کا نشانہ بنايا گيا تھا۔ تاہم اپوزیشن جماعتوں کا کہنا ہے کہ عوامی لیگ کی حکومت جنگی جرائم کے اس ٹریبیونل کے ذریعے ’سیاسی انتقام‘ لینے میں مصروف ہے۔

as/at (dpa)