1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بلے کے نشان سے محرومی: الیکشن کمیشن تنقید کی زد میں

عبدالستار، اسلام آباد
23 دسمبر 2023

سیاسی جماعتوں اور مبصرین کی طرف سے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے اس فیصلے کو ہدف تنقید بنایا جا رہا ہے، جس کمیشن نے پی ٹی آئی کو بلے کا انتخابی نشان دینے سے انکار کر دیا ہے۔

https://p.dw.com/p/4aWpz
Pakistan | Khan-Urteil
تصویر: Arif Ali/AFP/Getty Images

ای سی پی کے فیصلے میں تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی الیکشن کو بھی غیر قانونی قرار دے دیا ہے۔ سیاسی جماعتوں اور مبصرین کا کہنا ہے کہ اس طرح کے فیصلے جمہوریت کو کمزور کریں گے اور شفاف و منصفانہ انتخابات کے انعقاد کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کریں گے۔

پاکستان تحریک انصاف کا کہنا ہے کہ اس فیصلے کے پیچھے نہ صرف الیکشن کمیشن آف پاکستان ہے بلکہ ریاست کے طاقتور عناصر بھی ہیں، جنہیں پی ٹی ائی کی ممکنہ فتح سے خوف آ رہا ہے۔

انتخابات میں کاغذات نامزدگی جمع کرانے کی تاریخ میں توسیع

سائفر کیس: عمران خان اور شاہ محمود قریشی کی ضمانتیں منظور

واضح رہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے کل بروز جمعہ پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی الیکشن کے حوالے سے درخواست پر فیصلہ دیتے ہوئے ان انتخابات کو غیر قانونی قرار دیا تھا پی ٹی آئی کو انتخابی نشان بلا دینے سے انکار کر دیا تھا۔

کمیشن نے یہ محفوظ فیصلہ پشاور ہائیکورٹ کے اس فیصلے کے بعد دیا تھا، جس میںکمیشن کو حکمدیا گیا تھا کہ وہ انتخابی نشان کے حوالے سے فیصلہ دے۔

پی ٹی آئی کو نقصان ہو سکتا ہے

پی ٹی آئی کا بلے کا نشان ان کے ہمدردوں اور حمایتیوں میں بہت مقبول ہے اور خیال کیا جاتا ہے کہ اگر یہ نشان پارٹی کو مل جائے تو انتخابات میں وہ نسبتا مضبوط بن کے ابھرے گی۔ معروف تجزیہ نگار سہیل وڑائچ کا کہنا ہے کہ اگر اس فیصلے کو عدالتوں نے کالعدم قرار نہیں دیا تو یہ پی ٹی آئی کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''اگر فیصلہ برقرار رہتا ہے تو پی ٹی آئی کے امیدواروں کو آزاد حیثیت میں انتخابات لڑنے پڑیں گے، جس کا مطلب یہ ہے کہ ہر امیدوار کے پاس ایک مختلف انتخابی نشان ہوگا جس سے ووٹرز میں کنفیوژن پھیلے گا۔‘‘

پاکستان کے دیہی اور کم ترقی یافتہ علاقوں میں تعلیم کی شرح انتہائی کم ہے، جہاں ووٹرز کے لیے آسان چیز انتخابی نشان یاد رکھنا ہوتا ہے اور وہ اس انتخابی نشان کے بل بوتے پر اپنی پسندیدہ سیاسی جماعت کو ووٹ ڈالتے ہیں۔ اسلام اباد سے تعلق رکھنے والی صحافی فوزیہ کلثوم رانا کا کہنا ہے کہ اگر بلے کا نشان پی ٹی آئی کو نہیں ملتا تو دیہی اور پسماندہ علاقوں میں مسائل ہو سکتے ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ان علاقوں میں لوگوں کا سیاسی شعور اتنا پختہ نہیں ہوتا اور نہ ہی وہ اتنے زیادہ تعلیم یافتہ ہوتے ہیں۔ لہذا پاکستان تحریک انصاف کو ان علاقوں میں بہت زیادہ کام کرنا پڑے گا اور عوامی رابطے بڑھانے پڑیں گے۔‘‘

Pakistan election commission
الیکشن کمیشن پر جانبداری کے الزامات عائد کیے جا رہے ہیںتصویر: Aamir Qureshi/AFP/Getty Images

الیکشن کمیشن پر جانبداری کا الزام

 سوشل میڈیا کے کئی ٹرینڈز میں پی ٹی آئی کے حامی اپنا غصہ الیکشن کمیشن آف پاکستان پر نکال رہے ہیں اور اس کو جانبدار قرار دے رہے ہیں۔ عمران خان کے ایک معتمد خاص فیصل شیر جان کا کہنا ہے کہالیکشن کمیشن اپنی ذمہ داری ادا کرنے میں مکمل طور پہ ناکام ہو گیا ہے۔ انہوں نے بتایا، '' آئینی اور قانونی طور پر الیکشن کمیشن کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ صاف اور شفاف انتخابات کو یقینی بنائیں اور اس کے لیے سارے انتظامات کرے لیکن الیکشن کمیشن اس آئینی ذمہ داری کو پوری کرنے میں ناکام دکھائی دیتا ہے۔‘‘

بلے کا نشان کون نہیں چاہتا؟

پاکستان تحریک انصاف اور ملک کی طاقتور قوتوں کے درمیان گزشتہ دو سال سے ایک سرد جنگ چل رہی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن کا یہ فیصلہ بھی انہی طاقتور قوتوں کے اشارے پر ہوا ہے پی ٹی آئی کے ایک رہنما اور ممتاز قانون دان کا شیعب شاہین کا کہنا ہے کہ یہ قوتیں عمران خان سے خوفزدہ ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''یقینا یہ فیصلہ تو الیکشن کمیشن نے کیا ہے لیکن اس کے پیچھے ریاست کے طاقتور عناصر ہیں، جوعمران خان سے خوفزدہ ہیں اور انہیں ڈر ہے کہ اگر پی ٹی آئی کا راستہ نہیں روکا گیا تو عمران خان دو تہائی اکثریت حاصل کر لے گا۔‘‘

سہیل وڑائچ کا کہنا ہے کہ فیصلہ تو الیکشن کمیشن نے ہی دیا ہے، اسی لیے تنقید بھی اس پر ہی ہو رہی ہے۔ ''تاہم اس بات کے امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا کہ اس فیصلے کے پیچھے ملک کی طاقتور عناصر کا ہاتھ ہے کیونکہ پاکستان ایک سکیورٹی اسٹیٹ ہے جہاں پر ان طاقتور قوتوں کا ہمیشہ عمل دخل رہا ہے۔‘‘

Pakistan | Khan-Urteil
سابق وزیراعظم عمران خان جیل میں ہیںتصویر: Akhtar Soomro/REUTERS

جمہوریت کے لیے نقصان دہ

جہاں شعیب شاہین اس فیصلے کو غیر ائینی، غیر قانونی اور غیر اخلاقی قرار دیتے ہیں، وہیں کچھ دوسری سیاسی جماعتیں بھی یہ سمجھتی ہیں یہ فیصلہ جمہوریت کے لیے انتہائی نقصان دہ ہے۔ جماعت اسلامی کی ایک رہنما اور سابق رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر سمعیہ راحیل قاضی کا کہنا ہے کہ جما عت اسلامی ایسے فیصلوں کی کبھی حمایت نہیں کر سکتی۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''الیکشن کمیشن اور حکومت کو ایسے اقدامات کرنے چاہیے جس سے جمہوریت مستحکم ہو نہ کہ ایسے اقدامات جس سے یہ تاثر جائے کہ کسی ایک سیاسی جماعت کو ترجیح دی جا رہی ہے۔‘‘

سمعیہ راحیل قاضی کے مطابق پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ کبھی ایک سیاسی جماعت کو لاتی ہے اور کبھی کسی دوسری کو۔ '' حقیقت یہ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف، پاکستان پیپلز پارٹی، نون لیگ، جماعت اسلامی اور کئی دوسری سیاسی جماعتیں ایک سیاسی حقیقت ہیں، جن کو تسلیم کیا جانا چاہیے۔ حکومت اور عدالتوں کو ایسے اقدامات اٹھانے چاہیں جس سے شفاف انتخابات کی راہ ہموار ہو۔‘‘

فیصلہ چیلنج کردیا ہے

قانونی طور پر اگر الیکشن کمیشن آف پاکستان کے فیصلے کو ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ برقرار رکھتے ہیں تو پی ٹی آئی بحیثیت ایک جماعت کے انتخابات میں حصہ نہیں لے سکے گی بلکہ اس کے امیدواروں کو الیکشن آزادانہ طور پر لڑنے پڑیں گے۔ شعیب شاہین کا کہنا ہے کہ ان کی پارٹی نے پہلے ہی اس فیصلے کو عدالت میں چیلنج کر دیا ہے۔ '' ہمیں امید ہے کہ عدالت اس غیر قانونی اور ٖغیر آئینی فیصلے کو کالعدم قرار دے گی۔‘‘