1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بلوچستان، نواز شریف کا زلزلہ زدہ علاقوں کا دورہ

عبدالغنی کاکڑ، کوئٹہ8 نومبر 2013

پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف نے جمعے کو ضلع آواران کے دورے کے دوران یہ اعلان کیا ہے کہ حکومت زلزلے سے متاثرہ ان علاقوں کے عوام کی بحالی کے لیے تمام وسائل بروئے کار لائے گی اور اوران کو ایک ماڈل ضلع بنایا جائے گا۔

https://p.dw.com/p/1AEMK
تصویر: picture-alliance/ZUMA Press

پاکستانی وزیر اعظم میاں نواز شریف نے بھی جمعے کو زلزلہ متاثرین کے شکایات کے ازالے کے لیے ضلع آواران کا دورہ کیا اور وزیر اعلیٰ بلوچستان کے ہمراہ زلزلے سے متاثرہ علاقوں کا فضائی جائزہ لیا۔ بعد ازاں علاقے کے عمائدین سے گفتگو کے دوران وزیر اعظم نے زلزلے میں ہلاک ہونے والے افراد کے لواحقین کے لیے مالی امداد کا اعلان بھی کیا۔

نواز شریف نے کہا کہ حکومت ضلع آواران کو ایک ماڈل ضلع بنانے کے لیے فوری اقدامات شروع کرے گی۔ ان کا مزید کہنا تھا، ’’ بلوچستان کے جو لوگ بھٹک گئے ہیں ان کو کہتا ہوں اس قسم کی لڑائی میں کچھ نہیں، صبح کا بھولا اگرشام کو گھر واپس آئے تو اسے بھولا نہیں کہتے، ہتھیاراٹھانے والے ہتھیار پھینک دیں، قومی دھارے میں شامل ہوجائیں اور ہم سمجھتے ہیں کہ وہ ہمارے بھائی ہیں، اس لیے وہ اپنے علاقوں میں حالات کی بہتری کے لیے حکومت کا ساتھ دیں۔‘‘

Afghanistans Präsident Nawaz Sharif
پاکستانی وزیر اعظم میاں نواز شریفتصویر: Reuters

بلوچستان کے زلزلے سے متاثرہ قلات ڈویزن کے جنوب مغربی پسماندہ ضلع آواران تحصیل مشکے اور ضلع کیچ کے دورافتادہ علاقوں میں زلزلہ متاثرین کو فوری امداد کی فراہمی کے لیے حکومتی سطح پر یوں تو کئی دعوے سامنے آئے ہیں اور ریلیف کے کاموں میں مصروف سرکاری ٹیموں نے یہ اعلان بھی کیا ہے کہ امدادی آپریشن کے پہلے مراحل کامیابی سے طے ہو گئے ہیں۔

تاہم حقیقی صورتحال اس کے بالکل برعکس ہے۔ پسماندگی سے دوچار ان اضلاع میں اب بھی کئی دیہات ایسے ہیں، جہاں متاثرین کی مدد تو درکنار وہاں ریلیف آپریشن بھی اب تک شروع نہیں ہو سکا ہے، جس کی ایک وجہ جہاں ان علاقوں کے دشوارگزار راستے ہیں تو وہیں ایک اور اہم رکاوٹ وہ سکیورٹی خدشات بھی ہیں، جن کے باعث اب تک وہاں امدادی ٹیموں کی رسائی ممکن نہیں ہو سکی ہے۔

پاکستان کے نیشنل ڈایزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی کے سربراہ میجر جنرل محمد سعید حلیم کا کہنا ہے کہ آواران اور زلزلے سے متاثرہ بعض دیگر علاقوں میں وہاں کے مخصوص حالات کی وجہ سے ریلیف کے کاموں میں دشواریاں حائل ہیں تاہم انہیں جلد دور کر لیا جائے گا۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کے دوران ان کا کہنا تھا، ’’ہمارے پاس وسائل کی کمی نہیں ہے، جو بھی ہمیں چاہیے، وہ ہم استعمال کریں گے۔ صرف ان علاقوں کے جو مخصوص حالات ہیں اس کی وجہ سے ہمیں ریلیف کے کاموں کے لیے تھوڑا لمبا راستہ استعمال کرنا پڑتا ہے مگر یہ جو دشواریاں ہیں بہت جلد دور ہو جائیں گی۔‘‘

زلزلے سے متاثرہ ان علاقوں میں بلوچ علیحدگی پسند کالعدم تنظیموں کے حملوں کی وجہ سے متاثرین زلزلہ کو اب تک امداد سکیورٹی فورسز کی نگرانی میں فراہم کی جاتی رہی ہے اور متاثرہ علاقوں میں نجی سطح پر ٹیموں کو اب تک زلزہ متاثرین کو براہ راست امداد کی فراہمی کی اجازت نہیں ملی ہے۔