1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتپاکستان

بلوچستان میں ہونے والے مظاہرے ’منفرد‘ کیوں ہیں؟

15 اگست 2024

تجزیہ کاروں کے مطابق صوبہ بلوچستان میں بڑے پیمانے پر ہونے والے حالیہ مظاہرے مقامی آبادی میں بڑھتی ہوئی بے اطمینانی کی نشاندہی کرتے ہیں۔ ماضی میں اتنی زیادہ پاکستانی خواتین اپنے حقوق کے لیے سڑکوں پر کبھی نہیں نکلیں۔

https://p.dw.com/p/4jUCL
Pakistan | Anhänger des Balochistan Yakjehti Committee nehmen an der Baloch National Gathering in Gwadar teil
تصویر: AFP via Getty Images

پاکستان کے شورش زدہ صوبہ بلوچستان کے بندرگاہی شہر گوادر میں چین کے تعاون سے ایک نئے بین الاقوامی ہوائی اڈے کا افتتاح کیا جا رہا ہے۔ چینی میڈیا نے جون میں خبر دی تھی کہ ہوائی اڈے کو اس سال مکمل کرکے مقامی حکام کے حوالے کر دیا جائے گا۔

یہ ہوائی اڈہ پاک چائنہ اقتصادی راہداری (سی پیک) کا حصہ ہے۔ خیال رہے کہ سی پیک چین کے بین الاقوامی بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (بی آر آئی) کا ہی حصہ ہے۔

اگرچہ گوادر کے ہوائی اڈے کی وجہ سے اقتصادی ترقی میں مدد ملے گی لیکن اس علاقے میں بہت سے لوگ اس کی مخالفت کرتے ہیں۔

مقامی بلوچ کمیونٹی نے حالیہ دنوں میں پاکستانی حکومت کے خلاف بڑے پیمانے پر مظاہرے کیے۔ یہ کمیونٹی ان تعمیراتی منصوبہ جات کو  قدرتی وسائل کی غیر منصفانہ استحصال کے طور پر دیکھتی ہے۔

بلوچستان میں امن وامان کی صورتحال مزید مخدوش

بلوچستان میں دو بم دھماکے، کم از کم 24 افراد ہلاک

بلوچستان میں بڑے پیمانے پر مظاہرے

شہری، سیاسی اور سماجی و اقتصادی حقوق کے لیے مہم چلانے والی انسانی حقوق کی تنظیم بلوچ یکجہتی کمیٹی (بی وائی سی) نے بلوچستان بھر میں لوگوں کو متحرک کیا ہے اور بڑی ریلیوں کا انعقاد کیا ہے۔

بی وائی سی کی رہنما ماہرنگ بلوچ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ وہ 'بلوچ نسل کشی کے خلاف ایک تحریک‘ منظم کر رہی ہیں، جس میں پاکستانی حکام پر ہزاروں جبری گمشدگیوں اور ماورائے عدالت ہلاکتوں کا الزام لگایا گیا ہے۔

بلوچستان میں مظاہرے کیوں ہو رہے ہیں؟

اس خاتون بلوچ رہنما نے مزید کہا، ''بلوچستان میں سرمایہ کاری کرنے والا چین یا کوئی اور ملک بلوچ نسل کشی میں براہ راست ملوث ہے۔ مکران کی ساحلی پٹی میں جبری گمشدگیوں اور جبری نقل مکانی کی شرح بہت زیادہ ہے۔ وہ ہمارے وسائل کو لوٹ رہے ہیں اور مقامی بلوچوں کو کوئی فائدہ نہیں ہو رہا ہے۔‘‘

لیکن پاکستانی فوج نے بی وائی سی کو دہشت گردوں اور جرائم پیشہ مافیا کے لیے 'پراکسی‘ قرار دیا۔

فوج کے میڈیا ونگ کے سربراہ احمد شریف چوہدری نے گزشتہ ہفتے صحافیوں کو بتایا تھا کہ بی وائی سی کی حکمت عملی دراصل غیر ملکی فنڈنگ کے ذریعے ہجوم جمع کرنا، لوگوں میں بے چینی پھیلانا، پتھراؤ، توڑ پھوڑ کے ذریعے سرکاری اتھارٹی کو چیلنج کرنا اور غیر معقول مطالبات کرنا ہے۔

بلوچستان میں 'دہشت گردوں' کے حملوں میں متعدد افراد ہلاک

پاکستان ایران کشیدگی: کیا سفارت کاری مزید تصادم روک پائے گی؟

سی پیک میں گوادر کا کلیدی کردار

چین نے 2015ء میں سی پیک منصوبے کا اعلان کیا تھا، جس کا مقصد پاکستان اور وسطی اور جنوبی ایشیا میں اپنے تجارتی روابط اور اثر و رسوخ کو بڑھانا تھا۔ اس منصوبے کا ایک مقصد چین کے مغربی صوبے سنکیانگ کو پاکستان کے راستے سمندر سے جوڑنا بھی تھا۔ یوں چین کے لیے تجارتی راستے کم ہو جائیں۔

دوسری طرف پاکستان کو تقریباﹰ دو ہزار کلومیٹر طویل اس اقتصادی راہداری کی وجہ سے تجارت، بنیادی ڈھانچے اور صنعتی ترقی سے فائدہ ہو گا، جس کی مالی اعانت چین کرے گا۔

بلوچستان میں ماہی گیری کا ایک چھوٹا سا شہر گوادر اس منصوبے میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ راہداری کو عالمی شپنگ نیٹ ورک سے جوڑنے کے لیے اس کا انتخاب کیا گیا تھا۔ یہ شہر آبنائے ہرمز اور ایرانی سرحد کے قریب واقع ہے۔

گوادر کی گہرے سمندر کی بندرگاہ  سن 2007 میں مکمل ہوئی تھی جبکہ 2013ء میں اسے ایک چینی آپریٹنگ کمپنی کے حوالے کر دیا گیا تھا۔ اس بندرگاہ کو ایک نئے اسپیشل اکنامک زون میں ضم کیا جائے گا، جس کی بدولت گوادر کو ایک مصروف بندرگاہی شہر میں تبدیل ہو جائے گی۔

سکیورٹی کی 'غیر مستحکم‘ صورتحال

اربوں ڈالر مالیت کے اس بڑے منصوبے کے باوجود بلوچستان پاکستان کا سب سے غریب اور سب سے کم آبادی والا صوبہ ہے۔

قدرتی وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم کا الزام عائد کرنے والے علیحدگی پسند گروہ گزشتہ کئی دہائیوں سے پرتشدد کارروائیوں میں بھی ملوث بتائے جاتے ہیں۔

بلوچ رہنما بھی شکایت کرتے ہیں کہ اسلام آباد اور صوبہ پنجاب ان کے وسائل کا غیر منصفانہ استحصال کر رہے ہیں۔

ماہ رنگ بلوچ کے بیان پر تنقید کا طوفان، حقیقت کیا؟

’جبری گمشدگیوں کے معاملے کو ہمیشہ کے لیے حل کیا جانا چاہیے‘ چیف جسٹس

اسلام آباد حکومت اگرچہ صوبہ بلوچستان میں شورش کو ختم کرنے کے لیے عسکری کارروائیاں بھی کرتی رہی ہے، لیکن  وہاں سکیورٹی کی حالت مخدوش ہی بتائی جاتی ہے۔ بلوچ علیحدگی پسندوں نے پاکستان میں چینی مفادات کو بھی نشانہ بنایا ہے۔

انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس صوبے میں پاکستانی حکام کے اقدامات کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ فوج اور اس کی خفیہ ایجنسیوں کی جانب سے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کی کئی رپورٹس سامنے آئی ہیں۔

ساؤتھ ایشیا ٹیررازم پورٹل کے مطابق رواں سال کے پہلے سات ماہ میں بلوچستان میں دہشت گردی سے متعلق 248 واقعات رپورٹ ہو چکے ہیں۔

ہمارے پیارے مجرم ہیں تو عدالت میں لے جائیں، بلوچ مظاہرین

دفاعی تجزیہ کار قمر چیمہ نے فوجی تنصیبات پر عسکریت پسندوں کے حملوں کا حوالہ دیتے ہوئے صوبے کی سلامتی کی صورتحال کو 'غیر مستحکم‘ قرار دیا۔

انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''اس صورت حال کا مقابلہ کرنے کے لیے، جہاں بیجنگ نے بہت زیادہ سرمایہ کاری کی ہے، وہیں  امن اور استحکام کی بھی ضرورت ہے اور ریاست کو صورتحال کو قابو میں لانے کے لیے کام کرنا چاہیے۔‘‘

بلوچوں میں بڑھتی ہوئی بے چینی

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں حالیہ بڑے پیمانے پر ہونے والے مظاہرے مقامی آبادی میں بڑھتی ہوئی بے اطمینانی کی نشاندہی کرتے ہیں۔

سیاسی تجزیہ کار ملک سراج اکبر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پاک چائنہ اقتصادی راہداری کے نتیجے میں چین دراصل بلوچ اور اسلام آباد کے درمیان تنازعے میں الجھ گیا ہے۔

توانائی بحران کے خلاف کوئٹہ میں کسانوں کا احتجاجی دھرنا

پاکستان: بلوچستان میں مفاہمت کی پالیسی اورعدم تحفظ کے بڑھتے خدشات

بلوچستان کی کوریج کرنے والے صحافی اور تبصرہ نگار کییا بلوچ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ بی وائی سی کی قیادت والی حالیہ بلوچ تحریک گوادر کے بارے میں بیجنگ اور اسلام آباد کی پالیسیوں کی مخالفت کرتی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ سی پیک کے آغاز کے ایک عشرے بعد بھی گوادر کو  ہانگ کانگ یا دبئی جیسے شہر میں تبدیل کرنے کے وعدے پورے نہیں ہو سکے۔

کییا بلوچ نے ان مظاہروں میں خواتین کی غیر معمولی تعداد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ 'یہ مظاہرے منفرد‘ ہیں۔ نہ صرف بلوچستان بلکہ پاکستان بھر میں اس سے پہلے اتنی زیادہ خواتین اپنے حقوق کے لیے سڑکوں پر نہیں نکلی ہیں۔

ہارون جنجوعہ ( ع ب، اب ا)

بلوچستان کی خواتین کے لیے نئے مواقع

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں