1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بلوچستان میں غیر ملکی سرمایہ کاری کے خلاف نیا محاذ؟

24 مارچ 2022

بلوچ عسکریت پسند تنظیموں نے ایک مرتبہ پھر صوبے میں موجود غیر ملکیوں پر حملے کرنے کی دھمکی دی ہے۔ دوسری جانب قوم پرست سیاسی جماعتوں نے بھی نئے ریکوڈک معاہدے کو ’صوبے کے وسائل لوٹنے‘ کے مترادف قرار دیا ہے۔

https://p.dw.com/p/4904u
Recodeck gold mine Balochistan Pakistan
تصویر: DW/G. Kakar

پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں سرگرم حکومت مخالف عسکریت پسند گروپوں کی مشترکہ تنظیم بلوچ راجی آجوئی سنگر ( براس ) نے دھمکی دی ہے کہ  ریکوڈک کا معاہدہ فوری طور پر ختم نہ کیا گیا تو صورت حال کی ذمہ دار حکومت اور متعلقہ غیر ملکی کمپنیاں ہوں گی۔

مرکز میں پاکستان تحریک انصاف کی سابقہ اتحادی جماعت بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل کے مرکزی رہنماء نوابزادہ حاجی لشکری رئیسانی کا ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے  کہنا تھا، ''پہلے ایک فوجی جنرل کے دور میں سینڈک فروخت کیا گیا۔ اس کے خلاف ہم نے مزاحمت کی، اب ایک مشکوک اور پراسرار معاہدہ ریکوڈک کے حوالے سے کیا گیا ہے۔ اس معاہدے کو عوام کے سامنے پیش نہیں کیا گیا۔ ریکوڈک میں صرف سونا، تانبا اور چاندی نہیں بلکہ یہاں دس بارہ اقسام کے ایسے منرلز بھی پائے جاتے ہیں، جو کہ دنیا بھر میں بہت نایاب ہیں۔‘‘

ان کا مزید کہنا تھا، ''اس معاہدے کے حوالے سے حکومت نے جو موقف اختیار کیا ہے، وہ زمینی حقائق کے بالکل برعکس ہے۔ موجودہ صوبائی اور مرکزی حکومت اس معاہدے کے حوالے سے عوام کو تاریکی میں رکھنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ اگر یہ صورتحال برقرار رہی تو بلوچستان کی شورش غیر معمولی طور پر بڑھ سکتی ہے۔‘‘

لشکری رئیسانی کا کہنا تھا، ''بلوچستان کی پسماندگی کی ذمہ دار براہ راست وفاقی حکومت ہے۔ ہم ہمیشہ سے یہ کہتے آرہے ہیں کہ یہاں حکومت عوام کو صرف فرضی دعوؤں سے بے وقوف بناتی آ رہی ہے۔ ریکوڈک کے حوالے سے 25 فیصد شیئر بلوچستان کو دینے پر متعلقہ کمپنی نواب اسلم رئیسانی کے دور حکومت میں بھی تیار تھی۔ مسئلہ یہ ہے کہ یہاں سرمایہ کاری یا معاہدوں کا اختیار حقیقی منتخب نمائندوں کے پاس کیوں نہیں ہے؟ صوبے کے مفادات کو حکمران ذاتی مفادات پر قربان کر رہے ہیں۔ قدرتی وسائل سے مالا مال اس صوبے میں حقوق کے لئے آواز بلند کرنا عوام کے لیے جرم بنتا جا رہا ہے۔‘‘

'ریکوڈک معاہدہ اہم کامیابی‘

 دوسری جانب حکومتی سطح پرکینیڈین کمپنی بیرک گولڈ کے ساتھ ریکوڈک کے حوالے سے ہونے والے معاہدے کوایک اہم پیش رفت قرار دیا گیا ہے۔ وفاقی اور صوبائی سطح پر سامنے آنے والے موقف میں کہا گیا ہے کہ ریکوڈک سمیت تمام معاہدے صوبے کی ترقی اور زمینی حقائق کو مدنظر رکھ کر کیے گئے ہیں۔

حکومت بلوچستان کی ترجمان فرح عظیم شاہ کہتی ہیں کہ ریکوڈک معاہدہ بلوچستان کی ترقی کا ضامن ثابت ہو گا، ''موجودہ حکومت نے ہر فورم پر بلوچستان کے حقوق کا دفاع کیا ہے۔ صوبے کی تاریخ میں پہلی بار ریکوڈک کے حوالے سے اس قدر جامع معاہدہ کیا گیا ہے۔ اس معاہدے کے تحت کینیڈین کمپنی صوبے میں 40 بلین روپے خرچ کرے گی۔ بیرک گولڈ کمپنی ایک سال کی رائلٹی بھی ایڈوانس میں ادا کرے گی۔ اس معاہدے سے آٹھ  ہزار لوگوں کو روزگار کے مواقع میسر آئیں گے۔ بلوچستان میں غیرملکی سرمایہ کاری کے لیے حالات ہر حوالے سے سازگار ہیں ۔‘‘

Recodeck gold mine Balochistan Pakistan
تصویر: DW/G. Kakar

فرح عظیم شاہ کا کہنا تھا کہ بلوچستان کی ترقی سے خائف ملک دشمن قوتیں صوبے میں غیر ملکی سرمایہ کاری کو سبوتاژ کرنا چاہتی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا، ''دیکھیں اس وقت بلوچستان میں ایک منظم سازش کے تحت بدامنی پھیلائی جا رہی ہے اور جو عناصر ملک دشمن قوتوں کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں، وہ یہ نہیں چاہتے کہ یہاں ترقی ہو۔ حقوق کے نام پر عوام کو اب مزید بیوقوف نہیں بنایا جا سکتا۔ موجودہ حکومت  نے کینیڈین کمپنی کے ساتھ جو معاہد ہ کیا ہے، اس میں حقیقی معنوں میں صوبے کے حقوق کا دفاع کیا گیا ہے۔ جو بھی عناصر امن وامان کی صورتحال خراب کرنے کی کوشش کریں گے، ان کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا۔ سرمایہ کار کمپنیوں کو بلوچستان میں بھرپور سکیورٹی مہیا کی گئی ہے۔‘‘

سیاسی ناقدین کہتے ہیں کہ موجودہ حکومت نے ریکوڈک معاہدہ بلوچستان کی ترقی کے لیے نہیں بلکہ اس چھ ارب ڈالر کی رقم کی ادائیگی سے بچنے کے لئے کیا ہے، جو کہ جرمانے کی مد میں حکومت پر واجب الادا تھی۔ ریکوڈک کا سابقہ معاہدہ پاکستان پیپلز پارٹی کے دور میں 2011ء میں اس وقت ختم کیا گیا تھا، جب نواب محمد اسلم رئیسانی وزیر اعلیٰ بلوچستان تھے۔ بلوچستان میں مائننگ لائسنس ملنے پر ٹی سی سی نامی کمپنی نے ثالثی کے دو بین الاقوامی فورمز سے رجوع کر لیا تھا۔ انٹرنیشنل سینٹر فار سیٹلمنٹ آف انوسٹمینٹ ڈسپیوٹ نے کمپنی کے حق میں فیصلہ کرتے ہوئے پاکستانی حکومت پر بعد میں چھ ارب ڈالر کا جرمانہ عائد کیا تھا۔

صوبائی حکومت کے اعدادو شمار کے مطابق ریکوڈک معاہدے کے تحت کینیڈین کمپنی منصوبے پر آٹھ ارب ڈالر کی سرمایہ کرے گی۔ منصوبے پر تمام صوبائی ٹیکس لاگو ہوں گے اور بلوچستان کو آمدنی کا پچیس فیصد حصہ ملے گا۔ ریکوڈ ک کے حالیہ معاہدے کے خلاف بلوچ قوم پرست جماعت نیشنل پارٹی نے ملک گیر احتجاج کا بھی اعلان کیا ہے۔

قوم پرست جماعتوں کا احتجاج

نیشنل پارٹی کے سربراہ ڈاکٹر مالک بلوچ سے آج کوئٹہ میں وزیر اعلیٰ عبدالقدوس بزنجو نے ان کی رہائش گاہ پر ملاقات بھی کی اور ان سے ریکوڈک کے معاملے پر تبادلہ خیال بھی کیا۔ ذرائع کے مطابق اس ملاقات میں ڈاکٹر مالک بلوچ نے ریکوڈک معاہدے پر شدید تحفظات ظاہر کیے اور اسے صوبے کے مفادات سے متصادم قرار دیا۔

اسلام آباد میں وزیراعظم عمران خان اور وزیر اعلیٰ بلوچستان عبدالقدوس بزنجو کی موجودگی میں ہونے والے ریکوڈک معاہدے پر بلوچسان کی پشتون قوم پرست سیاسی جماعتوں نے بھی شدید تنقیدکی ہے۔ کینیڈین کمپنی بیرک گولڈ کے ساتھ ہونے والے اس معاہدے سے قبل بلوچستان اسمبلی کا حال ہی میں ان کیمرہ سیشن بھی منعقد کیا گیا تھا۔ اس اجلاس میں اراکین صوبائی اسمبلی کو معاہدے کی تفصیلات فراہم کی گئی تھیں۔

بلوچستان میں چائنا پاکستان اکنامک کوریڈور منصوبے کے تحت چینی کمپنیاں بھی مختلف شعبوں میں کام کر رہی ہیں۔ بلوچ عسکریت پسند گروپوں نےایک مرتبہ پھر بلوچستان میں غیر ملکی کمپنیوں کو تمام شعبوں میں کام بند کرنے کی دھمکی دی ہے۔ امن وامان کی موجودہ صورتحال کے تناظر میں بلوچستان میں غیر ملکی شہریوں کی سکیورٹی میں غیرمعمولی اضافہ کیا گیا ہے۔

'سب سے زیادہ فائدہ بلوچستان کا‘

آج بروز جمعرات کوئٹہ میں بلوچستان اسمبلی کا ایک اہم اجلاس بھی منعقد ہوا۔ اجلاس سے خطاب میں وزیر اعلیٰ عبدالقدوس بزنجو نے ریکوڈک منصوبے کے حوالے سے حکومتی موقف پیش کیا۔ انہوں نے کہا، ''بلوچستان کی تاریخ میں یہ واحد معاہدہ ہے، جس میں سب سے زیادہ منافع بلوچستان کو حاصل ہو گا۔ ہم نے اس معاہدے سے قبل تمام شعبوں سے مشاورت کی ہے۔ بعض لوگ اس حوالے سے منفی پروپیگنڈہ کر رہے ہیں ۔ میں یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ حکومت ان منصوبوں کے حوالے سے تمام تحفظات دور کرے گی۔ صوبائی کابینہ نے بھی اس پر بھرپور آمادگی ظاہرکی ہے۔‘‘

وزیر اعلٰی قدوس بزنجو کا کہنا تھا کہ صوبے کے سیاسی اور قبائلی قائدین سے رابطے کیے جا رہے ہیں تا کہ صوبے کی ترقی کے عمل میں ان کی بھرپور مشاورت بھی شامل کی جا سکے۔