1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بلوچستان میں انتخابی عمل: خواتین کی بہت کم شرکت پر تشویش

26 دسمبر 2012

بلوچستان کے ایک پسماندہ حلقے میں حالیہ ضمنی انتخاب میں خواتین ووٹروں کو حق رائے دہی سے محروم رکھے جانے سے متعلق ایک غیر سرکاری تنظیم کی رپورٹ نے حقوق خواتین کی تنظیموں اور سول سوسائٹی میں تشویش کی لہر دوڑا دی ہے۔

https://p.dw.com/p/179AU
تصویر: picture-alliance/dpa

فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک (فافین) کی رپورٹ کے مطابق پی بی18 شیرانی کم ژوب کے حلقے میں ہونے والے ضمنی الیکشن میں الیکشن کمیشن آف پاکستان خواتین ووٹروں کے لیے پولنگ بوتھ قائم کرنے میں ناکام رہا۔ رپورٹ کے مطابق الیکشن کمیشن نے اس حلقے میں 67 پولنگ اسٹیشن قائم کیے تھے، جن میں سے خواتین کے لیے کوئی ایک بھی مختص نہیں کیا گیا تھا۔ ۔

خواتین میں ووٹ ڈالنے کی اہمیت کے حوالے سے آگہی اور شعور بیدار کرنے کی اشد ضرورت ہے Pakistani women clad in traditional burqa, or veil, cast their votes in Peshawar, Pakistan, Monday, Feb. 18, 2008. Pakistanis voted Monday for a new parliament in elections shadowed by fears of violence and questions about the political survival of President Pervez Musharraf, America's key ally in the war on terror. (AP Photo/Mohammad Zuabair)
خواتین میں ووٹ ڈالنے کی اہمیت کے حوالے سے آگہی اور شعور بیدار کرنے کی اشد ضرورت ہےتصویر: AP

فافین کے ڈائریکٹر پروگرامز رشید چوہدری کا کہنا ہے کہ پاکستان میں خواتین ووٹروں کے انتخابی عمل سے دور رہنے کی مذہبی اور ثقافتی وجوہات کے علاوہ الیکشن کمیشن کا رویہ اور سیاسی جماعتوں کے خواتین ووٹوں کی تقسیم کے غیر اعلانیہ باہم معاہدے بھی ہیں۔ ڈوئچے ویلے کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پولنگ اسٹیشنوں پر ایسے ماحول کا شدید فقدان ہے، جس کی مدد سے خواتین ووٹروں کو انتخابی عمل میں شریک کیا جا سکے۔

رشید چوہدری نے کہا، ’’ژوب اور شیرانی کے یہ جو حلقے ہیں وہاں پر روایتی طور پر خواتین ووٹ ڈالنے کے لیے نہیں نکلتیں۔ لیکن ان انتخابات میں خواتین ووٹ ڈالنے آئی تھیں۔ بہت کم تعداد میں تھیں۔ لیکن گھروں سے نکلی تھیں۔ ان کو بعض جگہوں پر ووٹ ڈالنے کے لیے ضروری سہولیات مہیا نہیں کی گئیں اور ان کو بغیر ووٹ ڈالے ہی واپس بھجوا دیا گیا۔ خواتین پر مشتمل عملہ بھی موجود نہیں تھا جو انہیں کوئی سہولت دیتا۔ تو جب وہاں پر پولنگ اسٹیشن اور بوتھ قائم ہی نہیں کیے جاتے تو ایک طرح سے ریاست اس سوچ کو مضبوط کر دیتی ہے جو کسی بھی طرح لیکن پہلے ہی سے وہاں موجود ہے۔‘‘

اس رپورٹ پر موقف جاننے کے لیے بارہا کوششوں کے باوجود الیکشن کمیشن کے حکام سے رابطہ نہیں ہو سکا۔ ادھر فافین ہی کی ایک رپورٹ کے مطابق سال 2008ء کے عام انتخابات میں بھی خواتین کے لیے قائم 564 پولنگ اسٹیشنوں پر ایک بھی ووٹ نہیں ڈالا جا سکا تھا اور ان میں سے نصف ایسے پولنگ اسٹیشن تھے جہاں پر مناسب ماحول نہ ہونے کی وجہ سے خواتین ووٹ ڈالنے نہیں جا سکی تھیں۔

Karte Baluchistan englisch Flash-Galerie

قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں قائم صنفی تعلیمات کے شعبے کی سربراہ ڈاکٹر فرزانہ باری کا کہنا ہے کہ خواتین کا انتخابی عمل میں حصہ نہ لے سکنا دراصل خود ان کے لیے نقصان دہ ہے کیونکہ وہ ملک کی کل آبادی کا اکیاون فیصد ہیں۔ انہوں نے کہا، ’’یہ ہم نے دیکھا کہ ابھی جتنے بھی ضمنی انتخابات ہوئے ہیں، عورتوں کے حوالے سے بھی اور انتخابی قوانین کی خلاف ورزی کے حوالے سے بھی، کوئی بھی صورتحال بہت اچھی نظر نہیں آئی۔ یہ رجحان خطرناک ہے کیونکہ اگر ہم ضمنی انتخابات میں اس بات کو یقینی نہیں بنا سکتے کہ عورتیں جا کر اپنا حق رائے دہی آزادانہ استعمال کر سکیں، ان کی ووٹ ڈالنے کی شرح اتنی کم ہے، تو پھر عام انتخابات میں الیکشن کمیشن کس طرح اس کو یقینی بنائے گا؟‘‘

بلوچستان میں انتخابی عمل میں خواتین بہت کم حصہ لیتی ہیں
بلوچستان میں انتخابی عمل میں خواتین بہت کم حصہ لیتی ہیںتصویر: AP

واضح رہے کہ 2008ء کے انتخابات میں 25 فیصد پولنگ اسٹیشن مردوں 25 فیصد خواتین اور 50 فیصد مشترکہ ووٹنگ کے لیے قائم کیے گئے تھے۔ تاہم انتخابی عمل کی نگرانی کرنے والی تنظیموں کا کہنا ہے کہ مشترکہ پولنگ اسٹیشنوں پر ووٹ ڈالنے کی شرح سے خواتین کا ٹرن آؤٹ معلوم نہیں کیا جا سکتا۔ اس لیے اس نوعیت کا مستند ڈیٹا موجود نہیں کہ ان انتخابات میں خواتین کی ووٹ ڈالنے کی شرح کتنی رہی تھی۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ خواتین میں ووٹ ڈالنے کی اہمیت کے حوالے سے آگہی اور شعور بیدار کرنے کے ساتھ ساتھ قومی اداروں کو بھی اس سلسلے میں اپنے فرائض پورے کرنا ہوں گے۔

رپورٹ: شکور رحیم، اسلام آباد

ادارت: عصمت جبیں