1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بلوچستان: لانگ مارچ کے شرکاء راولپنڈی پہنچ گئے

شکور رحیم، اسلام آباد27 فروری 2014

پاکستانی صوبے بلوچستان کے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے لانگ مارچ کے شرکاء اپنی آخری منزل وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے قریب پہنچ گئے۔

https://p.dw.com/p/1BH0t
تصویر: DW/S. Raheem

یہ لانگ مارچ ستائیس اکتوبر دو ہزار تیرہ کو کوئٹہ میں پریس کلب کے سامنے سے شروع ہو کر ستائیس دن بعد کراچی پہنچا تھا۔ کراچی میں پریس کلب کے باہر بھوک ہڑتالی کیمپ لگائے رکھنے کے بعد مارچ کے شرکاء نے گزشتہ سال تیرہ دسمبر کو اسلام آباد کا رخ کیا۔ 72 سالہ ماما قدیر نے ڈوئچے ویلے کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا کہ وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف نے انہیں کراچی میں یقین دہانی کرائی تھی کہ لاپتہ افراد کا مسئلہ حل کیا جائے گا لیکن بعد میں وہ اپنے اس بیان سے مکر گئے، جس کے بعد انہوں نے احتجاجاً لانگ مارچ شروع کیا۔

Pakistan Protest Vermisste Menschen
ماما قدیر بلوچتصویر: DW/S. Raheem

راستے میں پیش آنے والی مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے ماما قدیر نے کہا، ’’عوام کی طرف سے ہمیں کوئی مشکلات پیش نہیں آئیں لیکن خفیہ اداروں کی طرف سے کافی مشکلات پیش آئیں۔ دھمکیاں، مارنے کی کوشش، واپس بھیجنے کی کاوش، تو یہ سلسلہ شروع تھا، ہم لوگوں نے ان کی پرواہ نہیں کی اور اپنا سفر جاری رکھا۔‘‘

ماما قدیر نے کہا کہ انہیں بلوچستان اور سندھ کی طرف سے تو بہت پیار ملا لیکن پنجاب میں ملتان کے بعد آنے والے مقامات پر تعصب کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ ماما قدیر نے کہا کہ وہ پاکستانی ریاست سے مایوس ہو چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اب تو انہیں عدلیہ سے بھی امید نہیں رہی کیونکہ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کوشش کے باوجود لاپتہ بلوچوں کا مسئلہ حل نہ کر سکے۔

ماما قدیر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''آرڈر تو وہ (سابق چیف جسٹس) کرتا رہا، چیختا رہا، چلاتا رہا، ایجنسیوں کو بلاتا رہا، اس کا کوئی حکم نہیں مانا گیا تو پھر ہم اِن سے کیا امید لگا کر بیٹھیں گے۔ خواجہ آصف (وزیر دفاع) کا تو پہلے ہی ذکر کر چکا میں، تو میرے خیال میں خواجہ آصف اور نواز شریف میں کوئی فرق نہیں ہو گا۔ یہاں تک کہ نواز شریف کے پاس بھی کوئی اختیار نہیں۔‘‘

Pakistan Demonstration für vermisste Angehörige in Queeta
لانگ مارچ اکتوبر میں کوئٹہ سے شروع ہوا تھاتصویر: DW/Shadi Khan Saif

ریاست اور اس کے ذمہ دار اہلکاروں سے اتنی مایوسی ہے تو پھر ماما قدیر اور اس کے ساتھی اسلام آباد کیوں جا رہے ہیں، اس سوال کے جواب میں ماما قدیر نے کہا، ''ہم جا رہے ہیں اپنی فریاد لے کر، اقوام متحدہ اور اس کے علاوہ جتنے بھی غیر ملکوں کے سفارتکار ہیں، ان کا بھی ہمارے ساتھ رابطہ ہے۔ ان سے بھی ملاقات کریں گے۔ ان کو بھی یادداشت دیں گے کہ وہ اپنے ممالک کے سربراہوں کو لکھیں اور اقوام متحدہ میں سب مل کر ایک قرارداد پیش کریں۔‘‘

دیگر شہروں کی طرح راولپنڈی میں بھی سول سوسائٹی اور بائیں بازو کی جماعتوں کے چند کارکنوں نے ماما قدیر اور ان کے ساتھیوں کا استقبال کیا۔ ورکرز پارٹی کی ایک رہنما عالیہ امیر علی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ بلوچوں کی ناراضگی دور کرنے کے لیے ابھی تک کچھ نہیں کیا گیا، جس کے سیاسی مضمرات بھی ہو سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا، ''ان کے اندر بہت عرصے سے غصہ ہے۔ اس غصے کی وجوہات ہی یہی ہیں کہ وہ اتنے عرصے سے اس مسئلے، بشمول دیگر مسئلوں کے، جمہوری طریقے سے پرامن اور سیاسی طریقے سے آواز اٹھاتے رہے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود جب سارے دروازے بند ملیں گے تو اس کے سیاسی اثرات بھی ملیں گے۔‘‘

لانگ مارچ کے شرکاء آج جمعرات اور جمعے کی درمیانی رات راولپنڈی میں قیام کے بعد صبح اسلام آباد میں داخل ہوں گے۔ پاکستانی خفیہ اداروں پر الزام لگتا رہا ہے کہ وہ لوگوں کی جبری گمشدگیوں میں ملوث ہیں تاہم ان اداروں نے ہمیشہ ان الزامات کی تردید کی ہے۔