1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بلوچستان: علم کی روشنی پھیلاتی چلتی پھرتی ’’کیمل لائبریری‘‘

21 فروری 2021

بلوچستان میں دور دراز علاقوں میں بچوں کو پرائمری اسکول کی سہولت تک دستیاب نہیں ہے۔ ایسے میں مند اور گرد و نواح کے دیہات میں شروع کیا جانے والا نیا پراجیکٹ ’’ کیمل لائبریری‘‘ تاریکیوں میں روشنی بکھیرتی امید کی کرن ہے۔

https://p.dw.com/p/3pejW
Kamelbibliothek von Hanifa Abdul Samad | in Mand
حنیفہ عبدالصمد کی ''کیمل لائبریری‘‘ ۔تصویر: Hanifa Abdul Samad

آٹھ سالہ عائشہ ہفتے بھر سے جمعے کے انتظار میں تھی۔ پچھلے ہفتے جب  حنیفہ عبدالصمد اپنی چلتی پھرتی ''کیمل لائبریری‘‘ کے ساتھ  ان کے گاؤں آئیں تو عائشہ اپنے خاندان کے ساتھ شادی کی تقریب میں شرکت کرنے  نزدیک کے ایک گاؤں گئی ہوئی تھی۔ واپسی پر جب اسے اپنی  سہیلیوں سے معلوم ہوا کہ اس دفعہ حنیفہ بہت سی نئی کہانیوں کی کتابیں بھی لائیں تھیں تو اس کے لیے اگلے جمعے کا انتظار کرنا بہت مشکل  ہوگیا۔

صرف عائشہ ہی نہیں مند کے صحرائی علاقے کے تقریباً  نصف درجن دیہات میں  بچے سارا ہفتے اب  ان کتابوں کا انتظار کرتے ہیں ۔ بلکہ بچے ہی کیا  نوجوان لڑکیاں اور  شادی شدہ خواتین بھی اب حنیفہ  اور  رحیمہ جلال  کی راہ تکتی ہیں  جو انہیں کتابیں فراہم کرنے کے علاوہ لکھنے پڑھنے اور بچوں کو اچھے مشغلوں میں مصروف رکھنے کے طریقے بھی سکھاتی ہیں۔

کیمل لائبریری پراجیکٹ کو چلانی والی رحیمہ جلال وفاقی وزیر برائے دفاعی پیداوار محترمہ زبیدہ جلال کی بہن ہیں جو بلوچستان میں تعلیم کے فروغ کے لیے ایک عرصے سے کوشاں ہیں۔ رحیمہ جلال مند میں اسکول  پرنسپل ہیں  انہوں   نے ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا  '' کیمل لائبریری کا آئیڈیا دراصل ان کی بہن زبیدہ  جلال کا تھا ۔ وہ منگولیا  اور ایتھو پیا  میں اس طرح کے کام سے کافی متاثر تھیں ۔  جب کورونا وائرس  کی وجہ سے تعلیمی ادارے بند ہوئے تو  انہیں خیال آیا کہ بچوں کے تعلیمی سلسلے کو بحال رکھنے کے لیے اس طرح   متحرک لائبریری کا سلسلہ شروع کیا جائے ۔‘‘

تعلیم کے شعبے میں بلوچستان اور فاٹا سب سے پیچھے

 

رحیمہ بتاتی ہیں،'' مند اور آس پاس کے دیہات میں بچوں کو کچھ زیادہ تعلیمی سہولیات دستیاب نہیں بلکہ بہت سے دیہات میں تو پرائمری اسکول تک نہیں ہیں۔ لہذا ہم نے چھوٹے پیمانے  پر چند خواتین کو ساتھ شامل کر کے تقریبا ً 4 ماہ قبل اس پراجیکٹ کا آغاز کیا ۔  مراد علی نامی اونٹ بان  ہماری معاونت کرتے ہیں جو اگرچہ خود اَن پڑھ ہیں مگر اس پراجیکٹ کا  اہم حصہ بن کر انتہائی فخر محسوس کرتے ہیں ۔ محض  چند ماہ میں اس لائبریری کے حوصلہ افزا نتائج دیکھتے ہوئے ہم اسے مزید تین دیہات تک وسعت دینے  جا رہے ہیں ۔‘‘

Kamelbibliothek von Hanifa Abdul Samad | in Mand
تصویر: Hanifa Abdul Samad

 

ڈی ڈبلیو  اردو نے وفاقی وزیر زبیدہ جلال سے اس منصوبے پر بات کرنے کے لیے رابطہ کیا مگر ان کی حکومتی ذمہ داریوں کے باعث یہ کوشش بار آور نہیں ہو سکی۔ مگر ان کی بہن رحیمہ  نے  تفصیلات بتاتے ہوئے کہا،''ہم ہفتے  میں چار دن اونٹ پر کتابیں لاد  کر دیہاتوں میں شام چار سے چھ  بجے  کے دوران جاتے ہیں اور بچوں کو  درسی کتب  کے علاوہ ان کی پسند کی  کہانیوں  اور جرنل نالج کی کتابیں فراہم کرتے ہیں۔ اس پراجیکٹ کو شروع کرنے کا مقصد یہ تھا کہ بچوں میں کتابیں پڑھنے کے شوق کو فروغ دیا جائے کیونکہ تعلیمی سلسلے میں تعطل کے باعث وہ پڑھائی لکھائی سے دور  ہیں۔‘‘

کیمل لائبریری کو چلانے والی مند کی رہائشی حنیفہ عبدالصمد نے ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا، ''اس پراجیکٹ میں کام کرنے پر ان کی فیملی بہت خوش ہے اور ہر طرح سے تعاون کرتی ہے۔  اس کے علاوہ مقامی  مرد بھی انھیں بہت عزت  دیتے ہیں اور جس دن انہیں اپنے اونٹ کے ساتھ کسی علاقے میں جانا ہو تو وہاں لوگ پہلے سے ان کے انتظار میں کھڑے ہوتے ہیں اور چائے، کھانے کے بغیر ہر گز نہیں جانے دیتے۔‘‘

 حنیفہ کہتی ہیں،'' سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی اُن کے پراجیکٹ کی ویڈیوز کے بر عکس انہیں  سفر کے علاوہ کسی مسئلے کا سامنا نہیں ۔ چونکہ ان علاقوں میں سڑکیں نہیں ہیں تو انہیں سفر کرنے میں دشواری کا سامنا ہوتا ہے۔ ایک وقت میں تقریباً  250 کتابوں کے اسٹاک  کے ساتھ وہ سفر کرتی ہیں اور عموماً سب کتابیں ہفتے بھر کے لیے بچوں کو ایشو کر دیتی ہیں ۔ کچھ بچے ایک ساتھ دو یا تین کتابیں بھی لے لیتے ہیں کیونکہ یہ  زیادہ صفحات  پر مشتمل نہیں ہوتیں۔ یہ کتابیں ہمیں لاہور کی لائبریری الف لیلی ڈونیٹ کرتی ہے۔ بچوں اور خواتین کی دلچسپی کو دیکھتے ہوئے اب وہ مختلف موضوعات کی کتابیں ، گیمز، پزل  اور ویڈیوز بھی اپنے اسٹاک میں شامل کر رہے ہیں۔‘‘

Kamelbibliothek von Hanifa Abdul Samad | in Mand
حنیفہ عبدالصمد اور مبراد علی ''کیمل لائبریری‘‘ کے ساتھ ۔تصویر: Hanifa Abdul Samad

حنیفہ جلال نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،''مستقبل میں مزید چار دیہاتوں میں کیمل لائبریری منصوبہ شروع کرنے کے علاوہ  وہ چاہتی ہیں کہ ایک یا دو کمروں کی لائبریری بھی بنا ئی جائے جہاں بچے مخصوص اوقات میں بیٹھ کر کتابیں پڑھیں۔ ساتھ ہی یہاں ویڈیوز اور ای لرننگ کے دیگر جدید طریقوں کے ذریعے انہیں تعلیم دی جائے جس کے لیے انہیں  مزید ڈونیشن کی ضرورت ہوگی ۔ ان کی بہن زبیدہ جلال  اس کے لیے اپنے ذرائع  سے کوشش کر رہی ہیں ۔پاکستان کے کروڑوں بچے اسکولوں سے باہر

مند کی رہائشی 25 سالہ حاجرہ نے ڈی ڈبلیو اردو کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے کہا ،’’ وہ چار بیٹوں کی ماں ہیں ۔ اسکول  بند ہونے سے  ان کے بچے سارا دن باہر کرکٹ یا  دیگر کھیلوں میں مشغول رہ کر بگڑنے لگے تھے مگر  رحیمہ اور حنیفہ کی کوششوں کی بدولت اب بچوں میں کتابیں پڑھنے کا شوق دیدنی ہے ۔  یہ خواتین بچوں کو پڑھنے لکھنے میں مدد  دینے کے ساتھ  خواتین کو  بچوں کی اچھی تربیت اور دیگر مسائل   سے متعلق مفید مشورے دیتی ہیں ۔ سب سے خوش آئند امر یہ ہے کہ علاقے کے مرد حضرات بھی ان  خواتین کی کوششوں سے بہت خوش ہیں۔‘‘

بلوچستان کی حکومت اگر ''کیمل لائبریری‘‘ جیسے چھوٹے مگر زود اثر منصوبوں کو پروموٹ کر کےانہیں مناسب سہولیات فراہم کریں تو صوبے میں شرح خواندگی میں اضافے کی رفتار کو تیز کیا جاسکتا ہے۔ 

 صادقہ خان / ک م

 

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید