1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بلوچستان: اجتماعی قبروں میں کون؟

عبدالغنی کاکڑ، کوئٹہ28 جنوری 2014

صوبہ بلوچستان کے ضلع خضدار میں دریافت ہونے والی اجتماعی قبر سے ملنے والی لاشوں کی تعداد بڑھ کر اکیس ہو گئی ہے اور ان لاشوں کی تعداد میں کئی گناہ اضافے کا خدشہ ظاہرکیا گیا ہے تاہم حکومت نے صرف پندرہ لاشوں کی تصدیق کی ہے۔

https://p.dw.com/p/1AyTO
تصویر: DW/ A. G. Kakar

ان لاشوں کی حالت اتنی خراب ہے کہ ان کی شناخت بھی ممکن نہیں ہے۔ ان لاشوں کی برآمدگی کے خلاف بلوچستان کے بلوچ اکثریتی علاقوں میں منگل کو مکمل شٹر ڈاؤن ہڑتال بھی کی گئی اور تمام کاروباری مراکز بند رہے۔ دوسری طرف پاکستان میں انسانی حقوق کے کمیشن ایچ آر سی پی نے بھی اس معاملےکا نوٹس لے لیا ہے اور واقعے کی تحقیقات کے لئے ایک فیکٹ فائندنگ مشن بھی بلوچستان روانہ کیا گیا ہے۔

علاقہ سکیورٹی فورسز کے گھیرے میں

کوئٹہ سے تین سو ساٹھ کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ضلع خضدارکے نواحی علاقے توتک میں ایک چرواہے کی اطلاع پر دریافت ہونے والی اجتماعی قبر سے لاشوں کی برآمدگی کے بعد وہاں کھدائی کا سلسلہ اب تک جاری ہے اور اس علاقے کو چاروں اطراف سے سکیورٹی فورسز نے گھیرے میں لے رکھا ہے۔ کسی کو بھی اس اجتماعی قبر کی جانب جانے کی اجازت نہیں دی جا رہی ہے۔ پاکستان میں انسانی حقوق کمیشن کی چئیر پرسن زہرہ یوسف کے بقول اجتماعی قبر کی دریافت کے بعد بلوچستان میں لاپتہ بلوچ سیاسی کارکنوں کی گمشدگی اور مسخ شدہ لاشوں کی برآمدگی کا معاملہ مزید سنگین شکل اختیار کر گیا ہے۔

vermisste Personen in der pakistanischen Provinz Balochistan
اجتماعی قبر کی دریافت کے بعد بلوچستان میں لاپتہ بلوچ سیاسی کارکنوں کی گمشدگی اور مسخ شدہ لاشوں کی برآمدگی کا معاملہ مزید سنگین شکل اختیار کر گیا ہےتصویر: DW/ A. G. Kakar

ڈی ڈبلیو سے گفتگو کے دوران ان کا کہنا تھا، ’’اس واقعے کی یقیناﹰ بلوچستان میں سیاسی کارکنوں کی گمشدگی کے معاملے سے کڑی ملتی ہے، بہت ضروری ہے کہ اس معاملے کی سنجیدگی سے تحقیقات کی جائیں کیونکہ خضدار میں جو مقامی لوگ ہیں ان کا یہ کہنا ہے کہ اجتماعی قبر سے ملنے والی لاشیں13 یا 15 نہیں بلکہ ان کی تعداد کافی زیادہ ہے۔‘‘

زہرہ یوسف کا مزید کہنا تھا کہ اجتماعی قبر کے ملنے سے بلوچ سیاسی کارکنوں کے لواحقین کو بھی شدید تشویش لاحق ہے اور اس حوالے سے ان کے تحفظات پر حکومت نے کوئی توجہ نہیں دی ہے، ’’جن لاپتہ بلوچ سیاسی کارکنوں کے لواحقین احتجاج کر رہے ہیں ان کو یہ خوف ہے کہ خضدار میں قبر سے جو لاشیں ملی ہیں، وہ ان کے رشتہ داروں کی بھی ہو سکتی ہیں۔ بلوچستان میں اب بھی طاقت کا استعمال جاری ہے اور لوگوں کو لاپتہ کر کے ان کی لاشیں پھینکی جا رہی ہیں۔‘‘

لاشوں کی تصدیق کسیے ہو ؟

اجتماعی قبر سے ملنے والی ان لاشوں کے بعد صوبائی حکومت نے کیا اقدامات کئے ہیں ؟ اس پر بلوچستان کے وزیر داخلہ سرفراز بگٹی کا ڈی ڈبلیو سے گفتگو کے دوران موقف کچھ یوں تھا، ’’ابھی تحقیقات ہو رہی ہیں، پورے علاقے کو سرچ کیا جا رہا ہے تاکہ اگر مزید بھی کوئی لاش ہو، تو اسے نکالا جا سکے۔ لاشوں کی حالت بہت خراب تھی، اس لئے اب تک ان کی شناخت نہیں ہو سکی ہے۔ ہم نے لاشوں کا ڈی این اے ٹیسٹ کرانے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ اس حوالے سے مزید معلومات سامنے آسکیں۔ زیادہ تر امکان یہی ہے کہ ہندوستان کی خفیہ ایجنسی را کے فنڈز سے چلنے والے لشکر، بلوچ ریپبلکن آرمی، بلوچ لبریشن آرمی، بلوچ لبریشن فرنٹ اور دیگر اس واقعے میں ملوث ہو سکتے ہیں۔‘‘

اجتماعی قبر سے ملنے والی یہ لاشیں ایک ماہ پرانی بتائی گئی ہیں اور اکثر افراد کے جسم کے اعضاء بھی بکھرے ہوئے پائے گئے ہیں، اس لئے اب تک کسی لاش کی شناخت ممکن نہیں ہو سکی ہے۔