1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بلوچ یکجہتی مارچ کے 290 مظاہرین کو رہا کر دیا گیا، پولیس

25 دسمبر 2023

مارچ کے منتظمین کا کہنا ہے کہ 100 زائد مظاہرین اب بھی زیر حراست ہیں۔

https://p.dw.com/p/4aYjD
بلوچ مظاہرین مظاہرین کئی دنوں سے پاکستان میں جبری گمشدگیوں اور ماورائے عدالت قتل کے واقعات کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔
بلوچ مظاہرین مظاہرین کئی دنوں سے پاکستان میں جبری گمشدگیوں اور ماورائے عدالت قتل کے واقعات کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔تصویر: Hazaran Baloch/BYM

اسلام آباد پولیس کا کہنا ہے کہ اس کی زیر حراست بلوچ یکجہتی مارچ کے 290 شرکاء کو رہا کر دیا گیا ہے، لیکن مارچ کے منتظمین نے اس بیان کو "جھوٹا" قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ 100 سے زائد مظاہرین اب بھی حکام کی تحویل میں ہیں۔

یہ مظاہرین کئی دنوں سے پاکستان میں جبری گمشدگیوں اور ماورائے عدالت قتل کے واقعات کے خلافسراپا احتجاج ہیں۔ گزشتہ ہفتے جب یہ بلوچستان سے وفاقی دارالحکومت میں دھرنا دینے کے ارادے سے اسلام آباد پہنچے تھے تو پولیس نے ان میں سے متعدد افراد کوگرفتارکر لیا تھا۔

ان مظاہرین میں زیادہ تر خواتین شامل ہیں، جن میں سے کچھ اسلام آباد میں احتجاج کے لیے اپنے ساتھ اپنے بچوں کو بھی لائی تھیں۔ ان کے اسلام آباد پہنچنے پر پولیس نے ان کو منتشر کرنے کے لیے ان پرلاٹھی چارج کیا اور واٹر کینن کا استعمال کیا۔

بلوچ یکجہتی مارچ کے مظاہرین میں زیادہ تر خواتین شامل ہیں، جن میں سے کچھ اسلام آباد میں احتجاج کے لیے اپنے ساتھ اپنے بچوں کو بھی لائی تھیں۔
بلوچ یکجہتی مارچ کے مظاہرین میں زیادہ تر خواتین شامل ہیں، جن میں سے کچھ اسلام آباد میں احتجاج کے لیے اپنے ساتھ اپنے بچوں کو بھی لائی تھیں۔تصویر: Hazaran Baloch/BYM

یہ مظاہرین بالخصوص چوبیس سالہ نوجوان بالاچ مولا بخش کے کیس کی طرف توجہ مبذول کرانا چاہتے تھے، جو نومبر میں بلوچستان میں پولیس کی حراست میں ہلاک ہو گیا تھا۔

حکام کا دعوٰی ہے کہ عسکریت پسندوں نے پولیس کی اس گاڑی پر حملہ کیا تھا جسم میں بالاچ مولا بخش کو لے جایا جا رہا تھا، اور وہ اس حملے میں ہلاک ہوگیا۔ پولیس حکام کا یہ بھی کہنا ہے کہ گرفتاری کے وقت بالاچ کے پاس دھماکہ خیز مواد موجود تھا۔

لیکن اس کے اہل خانہ نے حکام سے انصاف کا مطالبہ کیا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ بالاچ بے قصور تھا۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ بالاچ کو اکتوبر میں گرفتار کیا گیا تھا، جبکہ پولیس کے مطابق اسے نومبر میں گرفتار کیا گیا تھا۔

ہفتے کو بلوچ یکجہتی مارچ کے مطاہرین نے اسلام آباد میں نیشنل پریس کلب کے باہر دھرنا دیا تھا اور ساتھ ہی گرفتار مظاہرین کی رہائی اور ان کے خلاف درج مقدمات ختم کرنے کے لیے حکام کو تین دن کا الٹیمیٹم بھی دیا تھا۔

بلوچ مظاہرین مظاہرین کئی دنوں سے پاکستان میں جبری گمشدگیوں اور ماورائے عدالت قتل کے واقعات کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔
بلوچ مظاہرین مظاہرین کئی دنوں سے پاکستان میں جبری گمشدگیوں اور ماورائے عدالت قتل کے واقعات کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔تصویر: Abdul Ghani Kakar

اس دوران اس احتجاج کے منتظمین میں سے ایک ماہ رنگ بلوچ نے میڈیا کو بتایا کے چار خواتین پولیس اہلکاروں نے ان کو ڈنڈوں سے مارا۔

رائٹس ایکٹوسٹس نے بھی ان مظاہرین کے خلاف پولیس کے طاقت کے استعمال کی مذمت کی ہے، جبکہ سینیٹر مشتاق احمد اور ہیومن رائٹس ایکٹوسٹ فرحت اللہ بابر بھی نیشنل پریس کلب کے باہر احتجاج میں شریک ہوئے۔

سینیٹر مشتاق احمد نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا، "یہ پر امن مطاہرین ہیں جو ریاست کی دہشت گردی کا شکار ہیں۔" ان کا مزید کہنا تھا کہ پر امن احتجاج ہر شہری کا حق ہے۔

بالآخر اتوار کو اسلام آباد پولیس نے ایکس پر ایک پوسٹ میں کہا ہے، " وزیراعظم پاکستان کی تشکیل کردہ کمیٹی  اور گورنر بلوچستان کی ہدایات پر جوڈیشل کیے گئے تمام افراد عدالتی احکامات کے بعد جیل سے رہا ہو گئے۔ کل 290 مظاہرین پولیس کی تحویل اور جیل سے رہا ہوئے ہیں۔"

لیکن بلوچ یکجہتی مارچ کے منتظمین کی جانب سے ایکس پر ایک پوسٹ میں پولیس کے بیان کو "جھوٹا اور غیر منطقی" قرار دیا گیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ 100 سے زائد مظاہرین اب بھی پولیس کی تحویل میں ہیں اور کچھ تو لاپتہ بھی ہیں۔

م ا / ک م (اے پی)