1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بلوچ علیحدگی پسند آج ’یوم آزادی‘ منا رہے ہیں

عبدالغنی کاکڑ، کوئٹہ11 اگست 2014

گیارہ اگست1947ء کو انگریزوں کے انخلاء کے بعد مشرقی بلوچستان کو ایک آزاد ریاست کی حیثیت سے تسلیم کیا گیا تھا۔ بلوچ علیحدگی پسند ہر سال اس دن کو جشن آزادی کے طور پر مناتےہیں جبکہ 14اگست کو یوم سیاہ کے طور پر منایا جاتا ہے۔

https://p.dw.com/p/1CsZo
تصویر: DW/A. G. Kakar

پاکستان میں جہاں ملک بھر میں جشن آزادی کی تیار یوں کا سلسلہ جاری ہے وہیں آج شورش زدہ صوبہ بلوچستان میں بلوچ قوم پرست اور حکومت مخالف جماعتیں مشرقی بلوچستان کی آزادی کا دن منا رہی ہیں۔

اس ضمن میں صوبے کی متعدد بلوچ اکثریتی اضلاع میں آج شٹر ڈاؤن اور پہہ جام ہڑتال بھی کی گئی اور تمام کاروباری مراکز بند رہے۔ امن وامان کی بحالی اور کسی بھی ناخوشگوار واقعے سے بر وقت نمٹنے کے لئے صوبے بھر میں سکیورٹی کے سخت ترین اتظامات کیے گئے تھے۔

سکیورٹی خدشات کی وجہ سے وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کا آج طے شدہ دورہ بلوچستان بھی منسوخ کر دیا گیا۔ اس دورے کے دوران وزیر اعظم ضلع زیارت میں قائداعظم ریزیڈنسی کی اس نو تعمیر شدہ عمارت کا افتتاح کرنا چاہتے تھے جو کہ گزشتہ سال ایک کالعدم بلوچ عسکریت پسند تنظیم کے حملے میں تباہ ہو گئی تھی۔ 11 اگست 1947 ء کو انگریزوں کے انخلاء کے بعد مشرقی بلوچستان کو ایک آزاد ریاست کی حیثیت سے تسلیم کیا گیا تھا۔ بلوچستان کی بلوچ علیحدگی پسند جماعتیں ہر سال اس دن کو جشن آزادی کے طور پر مناتی ہیں جبکہ 14 اگست کو یوم سیاہ کے طور پر منایا جاتا ہے۔

Protest in Belutschistan
متعدد بلوچ اکثریتی اضلاع میں آج شٹر ڈاؤن اور پہہ جام ہڑتال بھی کی گئی اور تمام کاروباری مراکز بند رہےتصویر: DW/A. G. Kakar

پاکستان کے د فاعی امور کے سینئر تجزیہ کار جنرل ( ر) طلعت مسعود کے بقول حکو مت نے مسئلہ بلوچستان کے حل کے لئے سنجیدگی سے کوئی قدم نہیں اٹھایا ہے اور اس لئے یہ شدت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا مزید کہنا تھا، ’’حکمراں جماعت (ن) لیگ کا اتحادی ہونے کے باوجود بلوچستان کے وزیر اعلیٰ نے بھی یہ کہہ رکھا ہے کہ وزیراعظم بلوچستان کو بھول گئے ہیں، میرے خیال میں بلوچستان کی صورتحال پر سنجیدہ توجہ نہ پہلی حکومت نے دی ہے اور نہ ہی موجودہ حکومت کوئی موثر قدم اٹھا رہی ہے۔ اس لئے علیحدگی پسندوں کی تحریک زور پکڑتی جار ہی ہے۔‘‘

ماضی کی طرح بلوچستان کی مخلوط حکومت بھی کئی بار علیحدگی پسندوں کو مذاکرات کی دعوت دے چکی ہے مگر اس مقصد میں کامیابی کے آثار اب تک سامنے نہیں آئے۔ صوبائی حکو مت کے ترجمان جان محمد بلدی کے بقول بلوچستان کے مسئلے کا حل ان کی ترجیہات میں شامل ہے تاہم اس میں وقت ضرور لگے گا، ’’ہمارے جو بس کی بات ہے ہم ان تک پہنچ سکتے ہیں، ہماری حکومت اور پارٹی دونوں کی یہ پالیسی ہے کہ ہم مذاکرات کریں اور اس معاملے کا حل نکالیں۔ ہم نے بہت کوششیں کی ہیں اور ہماری ایک واضح پالیسی ہے کہ جو عسکری تنظیمیں ہیں اور جو مزاحمت کار ہیں انہیں مذاکرات کے میز پر لائیں اور یہ معاملہ حل کریں۔‘‘

11 اگست کے اس دن کی مناسبت سے صوبے کے کئی علاقوں میں آزاد بلوچتسان کے جھنڈے بھی لہرائے گئے اور مٹھیاں بھی تقسیم کی گئیں۔ جبکہ بعض مقامات پر احتجاجی مظاہرے کئے گئے اور ان مظاہروں میں بلوچستان میں انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں کو تنقید کا نشا نہ بنا یا گیا۔