1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بلوچ عسکریت پسندوں کے خلاف فوجی کارروائی میں تیزی

15 جولائی 2022

بلوچستان میں عسکریت پسندوں کے مشتبہ ٹھکانوں کے خلاف فوجی کارروائی نتیجہ خیز مرحلے میں داخل ہو گئی ہے۔ ادھر دوسری جانب بلوچ عسکریت پسندوں نے اپنے اہداف پر مذید حملوں کی دھمکی دی ہے۔

https://p.dw.com/p/4ECIQ
Pakistan l Tatort des Selbstmordattentats an Kontrollpunkt bei Quetta
تصویر: Arshad Butt/AP/picture alliance

پاکستان کے جنوب مغربی صوبے بلوچستان میں فوج اور انٹیلی جنس ادارے بلوچ عسکریت پسندوں کے خلاف بڑے پیمانے پر آپریشن میں مصروف ہیں۔ اس اپریشن میں فوج کے اسپیشل سروسز گروپ ،ایس ایس جی سی کے اہلکار بھی حصہ لے رہے ہیں۔ صوبے کے شوزش زدہ علاقوں میں جاری اس آپریشن میں عسکریت پسندوں کے کئی ٹھکانے تباہ اور بڑے پیمانے پر اسلحہ اور گولہ باردو برآمدکرنے کا دعویٰ کیا گیا ہے۔

بلوچستان اور سندھ کے مابین پانی کی تقسیم کا دیرینہ تنازعہ شدید

بلوچستان: مزدوروں کے کیمپ پر فائرنگ، تین افراد ہلاک

رواں ماہ 12 جولائی کو کوئٹہ میں تعینات فوج کے ایک سینئر افسر لیفٹیننٹ کرنل لئیق بیگ مرزا کوخاندان کے دیگر افراد سمیت  تفریحی مقام زیارت سے عسکریت پسندوں نے اغواء کیا تھا۔  مغوی اہلکارکو بعد میں قتل کرکے لاش مانگی ڈیم کے قریب پھینک دی گئی تھی۔ ذرائع کے مطابق مغوی فوجی افسر کے خاندان کے دیگر افراد کو اغوا کاروں نے ایک ویرانے میں چھوڑ دیا تھا۔ تاہم مذکورہ اہلکار کے ایک قریبی رشتہ دار محمد عمرکو تاحال بازیاب نہیں کرایا جاسکا ہے۔ لئیق بیگ مرزا کے اغواء اور قتل کی ذمہ داری ایک کالعدم بلوچ عسکریت پسند تنظیم نے قبول کی ہے۔

اسلام آباد میں مقیم ایک سینئر سکیورٹی اہلکار نبیل حسین کہتے ہیں کہ عسکریت پسندوں کے کئی ٹھکانے پہاڑی علاقوں میں قائم ہیں اس لیے آپریشن میں ہیلی کاپٹر بھی استعمال کیے جا رہے ہیں۔

ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نےکہا، ''بلوچستان میں یہ دہشت گردی کی ایک نئی لہر ہے۔ عسکریت پسندوں نے اپنے اہداف کے لیے اب ایسے علاقوں کا رخ کیا ہے جہاں امن وامان کی صورتحال ماضی میں کبھی خراب نہیں رہی۔ رواں ہفتے  زیارت جیسے پرامن علاقے کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے۔ چند روس قبل کوئٹہ کے کوئلہ کان سے بھی چار مزدوروں کو اغوا کیا گیا تھا۔  قبل ازیں ہرنائی اور مختلف دیگرمختلف علاقوں میں بھی ایسے ہی واقعات رونما ہوچکے ہیں۔‘‘

نبیل حسین کا کہنا تھا کہ اس خصوصی آپریشن میں علاقائی سطح پر مقامی لوگ بھی سکیورٹی فورسزکے ساتھ بھرپور معاونت کر رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا،''بلوچستان میں قیام امن کے لیے ماضی میں جو آپریشن کیے گیے ان میں عسکریت پسندوں کا آپریشنل نیٹ ورک بڑے پیمانے پر تباہ کیا گیا تھا۔ شدت پسند یہاں ہمیشہ مقامی آبادی کو اپنے کور کے طور پر استعمال کرتے رہے ہیں۔‘‘

نبیل حسین کا مذید کہنا تھا کہ عسکریت پسندوں اور ان کے سہولت کاروں کے خلاف ہونے والے اس بڑے آپریشن کا بنیادی مقصد صوبے میں قیام امن کی مجموعی صورتحال کو بہتر بنانا ہے۔

صوبائی وزیر داخلہ ضیاء اللہ لانگو کہتے ہیں کہ خطے کے بدلتے ہوئے حالات کے پیش نظر بلوچستان میں امن دشمن قوتیں اپنے ایجنڈے کی تکمیل کے لیے بدامنی پھیلا رہی ہیں۔

کوئٹہ میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ''جغرافیائی طور پر بلوچستان کی اہمیت اس خطے میں بہت زیادہ ہے۔ بدلتے ہوئے حالات کے اثرات براہ راست یہاں پڑ رہے ہیں۔ غیرملکی سرمایہ کاری کا معاملہ ہو یا دیگرمتعلقہ امور پاکستان مخالف قوتیں یہ نہیں چاہتیں کہ یہاں امن اور ترقی ہو۔ اسی لیے آئے روز بدامنی کے نئے پلان بے نقاب ہو رہے ہیں۔‘‘

بھٹ کھوڑی، بلوچستان کے حسین ساحل پر لاوارث گاؤں

دفاعی امور کے سینئیر تجزیہ کار میجر ریٹائرڈ عمر فاروق کہتے ہیں بلوچستان میں بدامنی پھلانے کا بنیادی مقصد پاکستان کو غیرمستحکم کرنا ہے۔

ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا،''میرے خیال میں بلوچستان کے جو موجودہ حالات ہیں وہ ماضی کی نسبت بہت گھبیر ہیں۔ ان حالات میں یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ کسی بھی غیر سنجیدہ قدم سے حالات مذید خراب ہو سکتے ہیں۔‘‘

بلوچستان میں بلوچ سیاسی رہنما صوبے میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں پر حکومت کو عرصہ دراز سے تنقید کا نشانہ بناتے رہے ہیں ۔

بلوچ قوم پرست رہنما اور سابق سینیٹر نواب زادہ حاجی لشکری خان رئیسانی کہتے ہیں بلوچستان میں پیدا ہونے والی شورش کی اصل ذمہ دار ریاست ہے، اسی لیے حالات میں بہتری سامنے نہیں آرہی ہے ۔

ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ''بلوچستان کئی دہائیوں سے ریاستی پالیسوں کے بدولت بحرانوں کا شکار ہے۔ جو بھی حکومت اقتدار کا حصہ بنتی ہے وہ صوبے کی حالت زارپر توجہ دینے کے بجائے صرف زبانی جمع خرچ سے عوام کو بے وقوف بنا کرچلی جاتی ہے۔ قدرتی وسائل سے مالا مال صوبہ ہونے کے باجود یہاں کے عوام کی زندگی آج تک بہتر نہیں ہوسکی ہے ۔ بلوچستان کے وسائل لوٹنے والے حکمرانوں سے جب حقوق کی بات کی جاتی ہے تو لوگوں پر غداری کا لیبل لگا دیا جاتا ہے ۔ کیا آئین کے تحت حق مانگنا جرم ہے۔‘‘

لشکری رئیسانی کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں جب تک حکومت زمینی حقائق کے مطابق معاملات کی بہتری پر توجہ نہیں دے گی ، امن وامان کی صورتحال بہتر نہیں ہوسکتی۔