1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بلوائیوں کے ہاتھوں کئی قتل: مودی حکومت کو قانون سازی کا حکم

17 جولائی 2018

بھارتی سپریم کورٹ نے وزیر اعظم مودی کی حکومت کو حکم دیا ہے کہ وہ ملک میں بلوائیوں کے ہاتھوں بار بار قتل کے واقعات کے خلاف نئی قانون سازی کرے۔ بھارت میں اس سال اب تک ایسے واقعات میں بائیس افراد کو ہلاک کیا جا چکا ہے۔

https://p.dw.com/p/31al0
تصویر: Imago/Hindustan Times/S. Mehta

بھارتی دارالحکومت نئی دہلی سے منگل سترہ جولائی کو ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق بھارت میں عام شہریوں کے قتل کے یہ قریب دو درجن واقعات ملک کے مختلف حصوں میں اس وقت رونما ہوئے جب مقامی باشندوں کے مشتعل گروہوں نے کسی نہ کسی شخص کو مشتبہ سمجھتے ہوئے اس پر حملہ کر دیا۔

ان واقعات کی وجہ اکثر سوشل میڈیا پر پھیلنے والی ایسی افواہیں بنیں کہ مثال کے طور پر کسی شہر میں بچوں کو اغوا کرنے والے مجرموں کے گروہ سرگرم تھے یا پھر کسی ضلع میں ایسے جرائم پیشہ گروہوں کے ارکان جگہ جگہ گھوم رہے تھے، جو مبینہ طور پر بچیوں اور عورتوں کو اغوا کر کے انہیں جسم فروشی کروانے والے گروہوں کے ہاتھ فروخت کر دیتے تھے۔

لیکن اکثر واقعات میں ایسے عوامی دعوے سوشل میڈیا پر محض افواہیں ہی ثابت ہوئے تھے، تاہم ان افواہوں کے بعد بظاہر اپنے ’بچوں اور خواتین کی سلامتی کی وجہ سے تشویش کا شکار‘ ہو جانے والے مشتعل شہریوں کے گروہ اب تک 22 افراد کو قتل کر چکے ہیں۔

Indien - Protest gegen Hass und Mob Lynchen
ایسی ہلاکتوں کے خلاف بھارت میں سول سوسائٹی کی تنظیموں کی طرف سے بھی بھرپور احتجاج کیا جا رہا ہےتصویر: Imago/Hundustan Times

یہ مقتولین تقریباﹰ سارے ہی ایسے بھارتی باشندے تھے، جو اپنے اپنے آبائی علاقوں سے دور بھارت کے کسی دوسرے حصے میں گئے ہوئے تھے اور مقامی زبانیں نہیں بولتے تھے۔ اسی لیے ان پر حملے کرنے والے مشتعل شہریوں اور بلوائیوں نے انہیں غلطی سے جرائم پیشہ سمجھ لیا تھا۔

بھارت میں ایسی افواہیں سوشل میڈیا پر اکثر وٹس ایپ جیسی ایپلیکیشنز کے ذریعے پھیلتی ہیں، جن کے بارے میں نئی دہلی میں ملکی سپریم کورٹ نے اب وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت کو یہ حکم دیا ہے کہ وہ ہر چند روز بعد کہیں نہ کہیں پیش آنے والے ایسے ’خوفناک اور قابل مذمت‘ واقعات کی روک تھام کے لیے خصوصی قانون سازی کرے۔

آبادی کے لحاظ سے دنیا کے دوسرے سب سے بڑے ملک بھارت میں مقامی شہریوں کے مشتعل گروہوں کے ہاتھوں قتل کا تازہ ترین واقعہ گزشتہ ہفتے جنوبی ریاست کرناٹک میں پیش آیا تھا، جہاں بلوائیوں نے امریکی سافٹ ویئر کمپنی گوگل کے ایک انجینیئر کو مبینہ طور پر بچے اغوا کرنے والا ایک مجرم سمجھتے ہوئے مار مار کر ہلاک کر دیا تھا۔

اس سے قبل اسی مہینے کی یکم تاریخ کو کرناٹک کی ہمسایہ بھارتی ریاست مہاراشٹر میں بھی اکٹھے پانچ افراد مشتعل شہریوں کے متعدد گروپوں کے حملوں کا نشانہ بننے کے بعد دم توڑ گئے تھے۔

اسی طرح بھارت میں حالیہ ہفتوں اور مہینوں میں کئی ایسے مسلمان بھی اکثریتی ہندو آبادی سے تعلق رکھنے والے نام نہاد ’رضاکار محافظوں‘ کے ہاتھوں مارے جا چکے ہیں، جن کے بارے میں سڑکوں پر نگرانی کرنے والے ہندوؤں کو شبہ ہو گیا تھا کہ وہ مبینہ طور پر ذبح کیے جانے کے لیے گائیوں کی نقل وحمل میں ملوث تھے۔ ہندو مت میں گائے کو ایک مقدس جانور سمجھا جاتا ہے اور اس کو ذبح کرنا ایک انتہائی ناپسندیدہ فعل ہے۔ بھارت میں افواہوں کی صورت میں ایسے غیر مصدقہ پیغامات عام صارفین کے مابین اس لیے بھی فوری طور پر تیزی سے گردش کرنے لگتے ہیں کہ بھارت وٹس ایپ کے صارفین کی دنیا بھر میں سب سے بڑی قومی منڈی ہے، جہاں وٹس ایپ استعمال کرنے والے شہریوں کی تعداد 200 ملین یا 20 کروڑ بنتی ہے۔

خود وٹس ایپ کمپنی کی انتظامیہ کی طرف سے بھی کہا جا چکا ہے کہ اسے یہ جان کر شدید تشویش ہوئی کہ بھارت میں اس ایپ کو کس طرح پرتشدد واقعات کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے اور کیسے وٹس ایپ صارفین کے مابین پھیلنے والی افواہیں قریب دو درجن بھارتی شہریوں کی جانیں لے چکی ہیں۔

م م / ع ب / اے ایف پی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید