1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
جرائمبھارت

بلقیس بانو کے مجرموں کی معافی نے نو دیپ کے زخم ہرے کر دیے

7 ستمبر 2022

گجرات فسادات میں بلقیس بانو کے ساتھ اجتماعی جنسی زیادتی کے مجرمان کو نہ صرف عام معافی ملی بلکہ رہائی کے بعد، جس طرح ان کا استقبال کیا گیا تو مجھے 1984ء کے سکھ مخالف فسادات میں ایسے ہی ایک کیس کی متاثرہ نودیپ یاد آ گئیں۔

https://p.dw.com/p/4GVly
Rohinee Singh - DW Urdu Bloggerin
تصویر: Privat

میری ملاقات نودیپ سے 2015ء  میں ہوئی تھی، جب میں دہلی اسمبلی انتخابات کے دوران ایک اسٹوری کرنے تلک وہار گئی تھی۔ مغربی دہلی میں تلک وہار ان ہزاروں بیواؤں کا گھر ہے، جنہوں نے 1984ء کے دہلی سکھ فسادات کے دوران اپنے شوہر اور گھر کھو دیے تھے۔

 اس سال یہ علاقہ خاصا چرچے میں آیا تھا کیونکہ دہلی کے اسمبلی انتخابات سے عین قبل نریندر مودی حکومت نے 1984ء کے دہلی فسادات کی نئی انکوائری شروع کرنے کا اعلان کیا تھا۔

نودیپ نے دو نومبر 1984ء کو اپنے والد کو اس وقت کھو دیا تھا، جب مشرقی دہلی کے ترلوک پوری علاقے میں ہندو ہجوم نے سکھوں کے گھروں پر حملہ کیا تھا۔ ہجوم نے اس کےگھر کو آگ لگائی او اس کے والد کو ان کی منت و سماجت کے باوجود آگ کے شعلوں کے حوالے کر دیا۔

 پھر نودیپ اور اس کی ماں کو اس بے دردی سے اجتماعی جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا  گیا کہ ماں، بیٹی بس موت کی بھیک مانگ رہی تھیں۔ ایسا ساری رات کیا گیا، غرض ہر طرف قہقہے لگاتے فسادی اپنی مردانگی کا مظاہرہ کرنے کے لیے بے تاب نظر آرہے تھے۔

نودیپ آہ و بکا کرنے کے بعد بے ہوش ہو گئی تھی اور ابھی بھی اس واقعے کو یاد کر کے لرز اٹھتی ہے۔ وہ بس گوشت کا ایک لوتھڑا تھی، جس کو گدھ بری طرح نوچ رہے تھے۔

اس وقت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی کو صرف دو روز قبل ان کے سکھ محافظوں نے گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔ اگلے تین دنوں تک، گاندھی کے قاتلوں کے ہم مذہبوں سے بدلہ لینے کے لیے فسادیوں کو کھلی چھوٹ دی گئی تھی۔

نودیپ کی ماں کبھی بھی اس صدمے سے باہر نہیں آ سکی۔ آج 75 سال کی عمر میں وہ بستر تک محدود ہیں۔ نودیپ اور اس کا بھائی، جو اس وقت آٹھ اور سات سال کے تھے، اپنی تعلیم کبھی مکمل نہیں کر سکے۔ گھر چلانے پر مجبور ہو کر اسے سکول چھوڑنا پڑا۔

وہ قریبی تلک نگر بازار میں ایک کاسمیٹک شاپ میں سیلز پرسن کے طور پر کام کرتی ہے۔ اس کا چھوٹا بھائی کار مکینک کا کام کرتا تھا۔ مگر اب اسے شراب کی لت لگ گئی ہے اور وہ اپنی ماں یا بہن کا سہارا نہیں بن پایا۔

ان فسادات میں ان گنت سکھ خواتین کی عزتیں لوٹیں گئی تھیں۔ خواتین فسادیوں کا پہلا نشانہ بنتی ہیں۔ گو کہ مردوں کو قتل کیا جاتا ہے، خواتین کو ہر لمحہ قتل ہونے کے لیے زندہ رکھا جاتا ہے۔ نودیپ، اس کی والدہ اور محلے کی دیگر خواتین نے فسادات کی انکوائری کرنے والے کئی کمیشنوں کے سامنے تحریری بیانات دیے اور اپنے اوپر ہوئی ظلم کی داستان رقم کروائی۔

ہر انکوائری کمیٹی اور کمیشن نے اعتراف کیا ہے کہ فسادات کے وقت جنسی زیادتی کی بھیانک وارداتیں پیش آئی تھیں لیکن تقریباً چالیس سال کا عرصہ گزر جانے کے باوجود ، کسی بھی قصوروار کو نہ سزا ہوئی نہ ہی اجتماعی جنسی زیادتی کے واقعات کی پولیس کے ذریعے تحقیقات آگے بڑھ پائیں۔

جب 15 اگست کو گجرات فسادات کے دوران بلقیس بانو کیس کے 11 مجرموں کو رہا کر دیا گیا، تو نودیپ نے مجھے فون کیا، وہ اپنے جذبات پر قابو نہیں رکھ پا رہی تھی۔ لگتا تھا کہ وہ اپنا درد یاد کر رہی تھی۔

 بلقیس کے قصور واروں کی رہائی سے اس کو لگتا تھا کہ وہ خود ایک بار پھر ملکی قانون کے ہاتھوں شرمسار ہو گئی ہے۔ مجھے لگا کہ یہ نہ صرف نودیپ بلکہ جنسی زیادتی کا شکار ہونے والی ہر عورت کی اخلاقی شکست تھی۔

بھارت میں فسادات کی تاریخ کے صفحات کو پلٹنے سے پتہ چلتا ہے کہ بلقیس بانو کا کیس واحد ایسا کیس تھا، جہاں ملزمان کو قانون کے ذریعے سزا دی گئی تھی۔ یہ ایک واٹرشیڈ مومنٹ تھی، جب ملک کی تاریخ میں پہلی بار فسادات کے وقت جنسی تشدد کا شکار ہونے والے کو انصاف فراہم کیا گیا تھا اور ملزمان کو عدالت نے مجرم قرار دے کر عمر قید کی سزا سنائی۔

مگر جب 15 اگست کو گجرات صوبے نے 11 مجرمان کو معافی دے کر رہا کر دیا تو اس سے نہ صرف بلقیس کے زخم پھر سے تازہ ہوئے بلکہ بھارت کی پوری خواتین انصاف کے اس اسقاط کو دیکھتی رہ گئیں۔

 اس گھناؤنے جرم کے مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لیے ایک عدالت سے دوسری اور ایک صوبے سے دوسرے صوبے تک، جو برسوں تک لڑائی ہوئی، اس کو قلم کے ایک جھٹکے سے صاف کر دیا گیا۔ اور یہ سب کچھ اس وقت ہوا، جب وزیر اعظم نریندر مودی نے دہلی کے لال قلعہ  میں عوام سے خطاب کرتے ہوئے ’ناری شکتی‘ خواتین کو با اختیار بنانے کی بات کہی۔

بھارت کی آزادی ہی تو فرقہ وارانہ فسادات اور خواتین کے ساتھ اجتماعی زیادتی کے واقعات سے شروع ہوئی۔ برصغیر کی تقسیم کے وقت مشرقی اور مغربی دونوں محاذوں پر بڑے پیمانے پر فرقہ وارانہ فسادات پھوٹ پڑے تھے۔ ان فسادات میں دس لاکھ سے زیادہ افراد کے مارے جانے کی اطلاع ہے۔

تاریخ کے صفحات لوٹ مار، آتش زنی اور جنسی حملوں کی داستانوں سے لال پڑے ہیں۔ آزاد بھارت نے تقریباً 60 ہزار فسادات دیکھے ہیں۔ نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے مطابق 2014ء میں نریندر مودی کی حکومت کے برسراقتدار آنے کے بعد 2020ء  تک بھارت کے کئی حصوں میں کل 5714 فسادات رپورٹ کیے گئے ہیں۔ یعنی روز دو فسادات ہوئے۔

وقتاً فوقتاً متواتر حکومتوں کی طرف سے تشکیل  دی گئیں کمیٹیوں نے دہلی فسادات کی تحقیقات کی ہیں۔ تمام کمیٹیوں نے اپنی رپورٹوں میں جنسی زیادتی کا شکار خواتین کی شہادتیں منظر عام پر لائی ہیں۔ لیکن کبھی کسی پر جنسی زیادتی کا مقدمہ نہیں چلا۔

بلقیس بانو کا سفر بھی آسان نہیں رہا۔ تین مارچ 2002ء کو بلقیس، جو کہ اس وقت 21 سال کی تھیں، پانچ ماہ کی حاملہ تھیں اور اس کی گود میں  ایک تین سالہ بیٹی بھی تھی۔ عصمت دری کرنے والوں نے بچی کو چھین کر ہوا میں اڑایا۔ زمین پر گرنے سے بچی کا سر پھٹ گیا اور وہ دم توڑ گئی۔ بلقیس اس ماں، بہنوں اور دیگر رشتہ داروں کے ساتھ کئی مردوں نے زیادتی کی۔ جب کہ اس کے خاندان کے 12 افراد کی موت ہو گئی، وہ اس آزمائش کو بیان کرنے اور انصاف کے حصول کے لیے زندہ بچ گئی۔

 تیستا سیتلواڑ اور سینئر پولیس افسر سنجیو بھٹ جیسے لوگ ہی تھے، جنہوں نے بلقیس کو انصاف دلانے میں مدد کی۔ لیکن سچ کے لیے کھڑے ہونے کی بھاری قیمت انہوں نے ادا کی اور اب بھی کر رہے ہیں۔ جنسی زیادتی کرنے والوں کا رہائی کے بعد ایسے استقبال کیا گیا، جیسے وہ کسی جدو جہد آزادی کی وجہ سے جیلوں میں چلے گئے تھے۔

جب تک جنسی زیادتی کے متاثرین کو انصاف نہیں ملے گا، تب تک خواتین فسادیوں کے ہاتھوں شکار ہوتی رہیں گی۔ جیسا کہ انگلینڈ میں مقیم سکھ صحافی اور مصنف پاؤ سنگھ اپنی کتاب ’1984، انڈیاز گلٹی سیکریٹ‘ میں لکھتے ہیں، ''جنسی زیادتی شروع سے ہی تشدد کا مرکزی عنصر تھی۔ تاہم غیر سرکاری اور سرکاری دونوں کھاتوں میں اس پر توجہ نہیں دی گئی کیوں کہ ہندوستان میں جنسی تشدد سماجی بدنامی سے منسلک ہے۔ قتل عام کی شدت اور ہولناکی اس قدر تھی کہ انہوں نے جنسی حملوں کو بڑے پیمانے پر ڈھانپ دیا ہے، جو بذات خود انسانیت کے خلاف ایک بڑے جرم کے مترادف ہے۔‘‘

 

نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو  کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

Rohinee Singh - DW Urdu Bloggerin
روہنی سنگھ روہنی سنگھ نئی دہلی میں مقیم فری لانس صحافی ہیں۔