1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بلاول بھٹو کے دورہ بھارت سے بند دروازے کھلنے کی امید؟

جاوید اختر، نئی دہلی
21 اپریل 2023

بلاول بھٹو زرداری گزشتہ بارہ برس میں بھارت کا دورہ کرنے والے پہلے پاکستانی وزیر خارجہ ہوں گے۔ پاکستانی وزارت خارجہ نے تصدیق کی کہ وہ گوا میں اگلے ماہ کے اوائل میں ہونے والی شنگھائی تعاون تنظیم کی میٹنگ میں شرکت کریں گے۔

https://p.dw.com/p/4QNnJ
Deutschland MSC I Bilawal Bhutto Zardari, Außenminister von Pakistan
تصویر: Irfan Aftab/DW

بلاول بھٹو زرداری گوا میں 4 اور 5 مئی کو شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے وزرائے خارجہ کی ہونے والی میٹنگ میں پاکستانی وفد کی قیادت کریں گے۔

پاکستان کے دفتر خارجہ کی ترجمان کے مطابق وہ اپنے بھارتی ہم منصب سبرامنیم جے شنکر کی دعوت پر اس میٹنگ میں شرکت کر رہے ہیں۔ بھارت اس وقت ایس سی او کے وزرائے خارجہ کی کونسل (سی ایف ایم) کا سربراہ ہے۔ اس تنظیم میں روس، چین، بھارت اور پاکستان شامل ہیں۔

یہ دورہ دونوں ملکوں کے مابین مذاکرات کا دروازہ کھول سکتا ہے

اسٹریٹیجک اور سفارتی امور کے ماہرین کا خیال ہے کہ بلاول بھٹو زرداری کے اس دورے سے دونوں ملکوں کے تعلقات کو معمول پر لانے میں مدد مل سکتی ہے۔

سفارتی امور کے ماہر اور پاکستان میں ہندوستان ٹائمز کے رپورٹر کے طور پر خدمات انجام دینے والے صحافی رضاالحسن لشکرکا کہنا ہے کہ "سب سے اہم بات یہ ہے کہ تقریباً دس سال بعد پاکستان کا کوئی رہنما بھارت آرہا ہے۔ یہ بات ہی اپنے آپ میں اہم ہے۔ ان کی بھارت میں موجودگی بھی اپنے آپ میں ایک بڑ اموقع ہے اور اس سے بات کرنے کا ایک دروازہ کھل سکتا ہے۔"

لشکر نے ڈی ڈبلیو اردو سے بات چیت کرتے ہوئے تاہم کہا کہ "یہ دیکھنا ہوگا کہ جب بلاول بھٹو بھارت آتے ہیں تو کیا وہ کوئی نیا نظریہ لے کر آتے ہیں، جس سے کیا کچھ دروازے کھل سکیں۔"

بھارت کے ساتھ مذاکرات کے امکانات'بہت محدود' ہیں، پاکستانی وزیر خارجہ

انہوں نے مزید کہا، "اگر ہم ماضی میں دیکھیں تو پائیں گے کہ بلاول بھٹو کی پارٹی پاکستان پیپلز پارٹی نے بھی بھارت۔ پاکستان رشتوں کو بہتر بنانے کے لیے کافی کام کیا ہے۔"

بھارتی وزرات خارجہ کے ترجمان اریندم باغچی کا تاہم کہنا تھا کہ دو طرفہ بات چیت کے بارے میں کچھ بھی کہنا فی الحال قبل از وقت اور جلد بازی ہو گی۔

پاکستان کی اس وقت کی وزیر خارجہ حنا ربانی کھر نے جولائی 2011 میں نئی دہلی کا دورہ کیا تھا
پاکستان کی اس وقت کی وزیر خارجہ حنا ربانی کھر نے جولائی 2011 میں نئی دہلی کا دورہ کیا تھاتصویر: dapd

بھارت اور پاکستان کے کشیدہ تعلقات

بھارت اورپاکستان کے تعلقات ایک عرصے سے کشیدہ ہیں۔ سن 2019 میں پلوامہ دہشت گردانہ حملے میں 40 بھارتی جوانوں کی ہلاکت کے بعد بھارت نے بالاکوٹ میں مبینہ طورپر واقع عسکریت پسندوں کے کیمپوں پر حملہ کیا تھا۔

اگست 2019 میں جب مودی حکومت نے جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت دینے والے دفعہ 370کو منسوخ کردیا تو پاکستان نے سخت ردعمل کا اظہار کیا تھااور بھارت کے ساتھ تجارت بند کردیا تھا۔

اقوام متحدہ میں کشمیر کے حوالے سے پاکستان اور بھارت میں پھر تکرار

دسمبر2022 میں نیویارک میں بلاول بھٹو زرداری نے وزیر اعظم نریندر مودی اور گجرات کے حوالے سے متنازع بیان دیا تھا جس کی بھارت نے سخت مخالفت کی تھی۔

پاکستان دفتر خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ نے ایک بیان میں کہا کہ "میٹنگ میں ہماری شرکت ایس سی اور کے چارٹر اور اس کے طریقہ کار کے تئیں پاکستان کی مسلسل عہد بندی اور اس امر کو ظاہر کرتا ہے کہ پاکستان اپنی خارجہ پالیسی ترجیحات میں علاقے کو کتنی اہمیت دیتا ہے۔"

دوسری طرف اریندم باغچی نے بلاول بھٹو زرداری کے دورہ بھارت کے حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ایس سی او کے تمام رکن ملکوں کو میٹنگ میں شرکت کی دعوت دی گئی تھی۔

 اریندم باغچی کا کہنا تھا، "ایس سی او پریزیڈنسی کے تحت ہم نے تمام ایس سی او رکن ملکوں کو مدعو کیا تھا۔ 4 اور 5 مئی کو گوا میں میٹنگ ہے۔ اور ہم توقع کرتے ہیں کہ یہ میٹنگ انتہائی کامیاب رہے گی لیکن کسی ایک ملک کی شرکت پر توجہ مرکوز کرنامناسب نہیں ہوگا۔"

امریکہ کا پاکستان کو بھارت سے 'ذمہ دارانہ تعلقات‘ کا مشورہ

سفارتی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ گوکہ بلاول بھٹو کا یہ دورہ کوئی باہمی دورہ نہیں ہے لیکن بھارت ایک بہت بڑا ملک ہے اور اسے اپنا بڑے پن کا مظاہر ہ کرنا چاہئے۔  ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ تمام کشیدگی کے باوجود فروری 2021 میں لائن آف کنٹرول پر دونو ں ملکوں کے ڈائریکٹر جنرل آف ملٹری آپریشنز کے درمیان معاہدہ ہوگیا۔ وہاں امن قائم ہے اور یہ بات چیت کے ذریعہ ہی ہوا۔ لہذا دونوں ملکوں کو کشیدگی ختم کرنے کے لیے بات کرنی چاہئے۔