1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بشار الاسد پر بڑھتا ہوا عالمی دباؤ

Kishwar Mustafa22 مئی 2013

قطر کے وزیر اعظم نے برطانوی وزیر خارجہ ولیم ہیگ کی ہمنوائی کرتے ہوئے کہا ہے کہ شام کے بحران کے خاتمے کے لیے ایک سیاسی حل اور شامی عوام کی خواہش کا احترام ناگزیر ہے۔

https://p.dw.com/p/18c9x
تصویر: picture-alliance/dpa

آج اردن کے دارالحکومت عَمان میں ہونے والے فرینڈز آف سیریا کے اجلاس میں برطانیہ، مصر، فرانس، اٹلی، جرمنی، اردن، قطر، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے علاوہ امریکا سے تعلق رکھنے والے گیارہ اعلیٰ ترین مندوبین شرکت کر رہے ہیں۔ اس اجلاس کو اگلے ماہ شام کے موضوع پر اقوام متحدہ کے زیر اہتمام ہونے والے اجلاس کی تیاریوں کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔

اُردن کے دار الحکومت عمان میں 10 ممالک کے اجلاس ’فرینڈز آف سیریا‘ کے انعقاد کو مسترد کرتے ہوئے اُردن کے لیے شام کے وزیر نے کہا ہے کہ یہ اسرائیل اور امریکا کی شام کو تباہ کرنے کی ایک مشترکہ کوشش ہے۔ اس اجلاس میں امریکی وزیر خارجہ جان کیری بھی شریک ہیں۔ امریکی وزارت خارجہ کے ایک اعلیٰ اہلکار نے اجلاس سے پہلے نام مخفی رکھنے کی شرط پر بتایا تھا کہ اس اجلاس کے دوران اہم علاقائی طاقتوں کے ساتھ ساتھ یورپی اور امریکی مندوبین مل کر کسی ایک حکمت عملی پر متفق ہونے کی کوشش کریں گے۔

اُدھر قطر کے وزیر اعظم نے آج دوحہ منعقدہ ایک اجلاس میں بیان دیتے ہوئے شامی صدر سے مطالبہ کیا کہ وہ اقتدار چھوڑ دیں۔ شیخ حمد بن جاسم بن جبر الثانی کے بقول،’ اگر شام کی خانہ جنگی کا سیاسی حل منظور ہے تو بشار الاسد کو فوری طور سے اقتدار سے علیحدہ ہو جانا چاہیے‘۔ قطر کے وزیر اعظم نے برطانوی وزیر خارجہ ولیم ہیگ کی ہمنوائی کرتے ہوئے مزید کہا،’ شام کے بحران کے خاتمے کے لیے ایک سیاسی حل اور شامی عوام کی خواہش کا احترام ناگزیر ہے۔ ہماری اطلاعات کے مطابق شام کے عوام حکومت اور بشار الاسد سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتے ہیں‘۔ شیخ حمد نے کہا ہے کہ شام کے بحران کا حل اسی فریم ورک میں کیا جانا چاہیے۔

آج بُدھ کو فرینڈز آف سیریا کے اجلاس شروع ہونے سے پہلے ہی برطانوی وزیر خارجہ ولیم ہبگ نے برطانیہ کا دیرینہ موقف دہراتے ہوئے کہا،’ بشار الاسد کو اب چلے جانا چاہیے، ہمیں اس کے علاوہ شامی بحران کا کوئی ایسا حل نظر نہیں آ رہا جس میں بشار الاسد کے بطور صدر مزید برقرار رہنے کی کوئی گنجائش ہو ‘۔

شامی خانہ جنگی میں حزب اللہ کے کردار پر تنقید

ادھر متعدد واچ ڈاگ اداروں نے دعویٰ کیا ہے کہ حزب اللہ کے متعدد جنگجو لبنان کے سرحدی راستوں سے شام میں داخل ہو گئے ہیں تاکہ وہ شامی صدر بشار الاسد کی حامی افواج کے ساتھ مل کر باغیوں کے خلاف لڑ سکیں۔ واشنگٹن حکومت نے حزب اللہ کی طرف سے شام میں مبینہ مداخلت کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے جبکہ یورپی یونین نے کہا ہے کہ وہ لبنان کی اس تنظیم کے عسکری ونگ کو دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کرنے کا ارادہ کر رہی ہے۔

متعدد سکیورٹی تجزیہ کاروں نے کہا ہے کہ شام میں گزشتہ 26 ماہ سے جاری سیاسی بحران کے اثرات ہمسایہ ممالک پر پڑنے لگیں ہیں۔ اسی تناظر میں اسرائیل اور شامی فورسز نے گولان کی متنازعہ سرحدی پہاڑیوں پر فائرنگ کا تبادلہ بھی کیا ہے۔ اسرائیلی فوج کے سربراہ نے خبردار کیا ہے کہ اگر شامی فورسز اس علاقے سے اسرائیل پر حملوں کا سلسلہ بند نہیں کرتیں تو اس کے سنگین نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔

Syrien-Hilfe-Konferenz in Rom
چند ماہ قبل روم میں شام کی امداد کے لیے بھی ایک کانفرنس کا انعقاد ہوا تھاتصویر: picture-alliance/dpa

ایسی اطلاعات موصول ہوئی ہیں کہ شیعہ تنظیم حزب اللہ کے عسکریت پسند صوبہ حمص میں واقع قصیر نامی علاقے میں جاری لڑائی میں حکومتی فورسز کی رہنمائی کر رہے ہیں۔ سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کے سربراہ رامی عبدالرحمان نے کہا ہے، ’’ یہ واضح ہے کہ حزب اللہ کے جنگجو اس لڑائی میں کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ شامی فضائیہ نے اپنے حملے جاری رکھے ہوئے ہیں اور بہت سا علاقہ تباہ ہو چکا ہے۔

رامی عبدالرحمان کے بقول قصیر میں اتوار سے جاری لڑائی میں حزب اللہ کے 31 جنگجو مارے جا چکے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اس دوران 70 باغی اور 9 شامی فوجی بھی لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس صورتحال میں قصیر میں قریب 25 ہزار شہری پھنس کر رہ گئے ہیں۔ اقوام متحدہ کی بچوں کے لیے کام کرنے والی ایجنسی نے کہا ہے کہ قصیر میں محصور ہونے والے شہریوں میں زیادہ تر تعداد بچوں اور خواتین کی ہے۔ اس ایجنسی کی خاتون ترجمان نے جینوا میں بتایا کہ اس علاقے کی صورتحال انتہائی ابتر ہو چکی ہے۔

Syrien Kämpfe Aleppo 04.08.2012
فری سیرین آرمی کا ایک فوجیتصویر: Reuters

اس بحرانی صورتحال میں دمشق حکومت کے ایک اہم حامی شیعہ ملک ایران نے کہا ہے کہ وہ شام کے بارے میں امریکا اور روس کی طرف سے تجویز کردہ امن مذاکرات میں شرکت کے لیے تیار ہے۔ جون میں جینوا میں ہونے والے ان مذاکرات کے لیے شام نے کچھ ممالک کے رہنماؤں کو نامزد کیا ہے۔ یورپی یونین نے کہا ہے کہ شامی حکومت اور باغی دونوں ہی اس مذاکراتی عمل کے لیے بااعتماد ٹیمیں تشکیل دیں تاکہ موجودہ ابتر صورتحال میں بہتری کے لیے ٹھوس اقدامات ممکن بنائے جا سکیں۔

Km/ab/ah( AFP, Reuters