1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’بس کرو‘: پاکستان میں خواتین کے لیے سستی اور محفوظ سواری

10 دسمبر 2023

’بس کرو‘ ٹرانسپورٹ سروس پاکستان کے تین بڑے شہروں میں خواتین کو سستی اور محفوظ سواری فراہم کر رہی ہے۔ 2022 میں شروع کیے جانے والے اس سٹارٹ اپ نے حال ہی میں ایک اعشاریہ پانچ ملین ڈالر کی پری سیڈ فنڈنگ بھی حاصل کی ہے۔

https://p.dw.com/p/4Zuj7
بس کرو سٹارٹ اپ
بس کرو سٹارٹ اپتصویر: BusCaro

پاکستان میں پیٹرول کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے باعث تعلیمی اداروں اور دفتروں تک روزانہ سفر عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہوتا جا رہا ہے۔ خواتین اس حوالے سے دگنے تگنے مسائل کا شکار ہیں۔ ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستانی ورکر خواتین اپنی آمدنی کا تیس فیصد ٹرانسپورٹ پر خرچ کرنے پر مجبور ہیں۔

اس کے ساتھ ہی پرائیویٹ بسوں میں خواتین کو جنسی ہراسانی اور نامناسب رویوں کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ جبکہ رکشہ، ٹیکسی، کریم یا ان ڈرائیو جیسی سروسز پر اکیلے سفر سے بہت سی خواتین کتراتی ہیں۔

اس مسئلے کے حل کے لیے پاکستانی انٹرپرینیور ماہا شہزاد نے سن 2022 میں اپنی ٹرانسپورٹ سروس 'بس کرو‘ کے نام سے شروع کی جس کا مطلب بس میں سواری کرنا ہے۔

بس کرو کا آغاز کیسے ہوا؟

بس کرو سٹارٹ اپ کی بانی ماہا شہزاد نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ وہ انیس برس کی عمر میں جنوبی کیلیفورنیا میں زیر تعلیم تھیں۔ انہیں روزانہ سکول پہنچنے کے لیے چھ گھنٹے سے زائد سفر کرنا پڑتا تھا جس کی وجہ سے انہیں اپنا ہائی سکول چھوڑنا پڑا تھا۔

وہ بتاتی ہیں کہ تعلیم مکمل کرنے کے بعد جب وہ پاکستان منتقل ہوئیں تو یہاں روزانہ سفر میں بےشمار مسائل کا سامنا تھا اور وہ دیکھتی تھیں کہ لوئر اور مڈل کلاس کی ملازمت پیشہ خواتین اس سے کہیں زیادہ مسائل کا شکار ہیں۔

ان کے مطابق تقریباً 85 فیصد پاکستانی خواتین نے زندگی میں ایک دفعہ دوران سفر جنسی ہراسانی یا نامناسب رویوں کا سامنا کیا ہے۔

ماہا شہزاد، بس کرو کی بانی
ماہا شہزاد، بس کرو کی بانیتصویر: BusCaro

ماہا شہزاد بتاتی ہیں کہ بس کرو شروع کرنے سے پہلے وہ کریم ٹرانسپورٹ سروس کے ساتھ کام کر چکی تھیں۔ انہوں نے دیکھا کہ کرایہ زیادہ ہونے کے باعث کم آمدنی والے طبقے میں سے دو تا تین فیصد افراد ہی کریم استعمال کر تے ہیں۔

ماہا بتاتی ہیں کہ اس کے بعد انہوں نے ایک دبئی بیسڈ ٹرانسپورٹ کمپنی کے ساتھ بھی کام کیا جو اب پاکستان میں فنکشنل نہیں ہے۔ اس طرح انھیں روزانہ سفر کرنے والی خواتین کے مسائل کو بہتر طور پر سمجھنے کا موقع ملا جس کے بعد 2022  میں انہوں نے بس کرو سروس کا آغاز کراچی سے کیا۔

یہ کمپنی اب ملک کے تین بڑے شہروں کراچی، لاہور اور اسلام آباد میں کامیابی کے ساتھ سروسز فراہم کر رہی ہے۔ ماہا کے مطابق  300 سے زائد بسوں اور وین کے ساتھ بس کرو ایپ روزانہ  بیس ہزار سے زائد آرڈر حاصل کر تی ہے۔

بس کرو کی انفرادیت کیا ہے؟

ماہا شہزاد نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ بس کرو کو مارکیٹ میں ان ڈرائیو، کریم، یینگو اور دیگر ٹرانسپورٹ فراہم کرنے والی ایپلی کیشن سے شدید مسابقت کا سامنا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ہماری کامیابی اور بہتر سروس کا سب سے بڑا ثبوت  حال ہی میں ملنے والی ایک اعشاریہ پانچ  ملین ڈالر کی پری سیڈ فنڈنگ ہے۔

ماہا بتاتی ہیں کہ کراچی میں متعدد پرائیویٹ یونیورسٹیاں اور نجی کمپنیاں اپنی خواتین ورکرز کو روزانہ کی محفوظ اور سستی سواری فراہم کرنے کے لیے بس کرو کے ساتھ کام کر رہی ہیں۔ جس کے لیے بس کرو (B2B2C) گاڑیاں استعمال کرتی ہے۔

خواتین کے سفر کو کس طرح محفوظ بنایا گیا ہے؟

ماہا شہزاد کے مطابق ان بسوں اور وینوں میں خواتین کے سفر کو مزید محفوظ بنانے کے لیے بس کرو نے اپنی ایپلی کیشن میں متعدد ایسے فیچرز متعارف کرائے ہیں جو دیگر کمپنیوں کی ایپلی کیشنز میں موجود نہیں ہیں۔ ان میں ڈرائیور بیک گراؤنڈ چیک، مسلسل ٹریکنگ اور وہیکل انسپیکشن کے فیچرز قابل ذکر ہیں۔

وہ مزید بتاتی ہیں کہ اپنی ایپ میں ایک بہت ہی خاص فیچر انہوں نے صرف خواتین کے لیے متعارف کرایا ہے جس میں وہ اپنا نام اور شناخت چھپا کر کسی فرضی نام سے رائڈ بک کر سکتی ہیں۔ یہ فیچر خاص کر ان نوجوان لڑکیوں کے لیے ہے جو اپنا نام اور لوکیشن شیئر کرنے میں تحفظات کا شکار ہوتی ہیں۔

Pakistan | Startup BusCaro
بس کرو کا آغاز 2022 میں کیا گیاتصویر: BusCaro

ماہا شہزاد کے مطابق  24 گھنٹے مسلسل ایمرجنسی کسٹمر سپورٹ فراہم کرنے کے ساتھ ان کی کمپنی جلد ہی اپنی ایپ میں ایک نئے ' پینک بٹن‘ کا اضافہ کر رہی ہے۔

یہ فیچر رائڈر خواتین  کو براہ راست بس کرو اور اس کی پارٹنر سکیورٹی ایجنسی 'محافظ‘ سے رابطے میں لا سکے گا۔ اس طرح سفر کر مزید محفوظ بنانے میں مدد ملے گی۔

سروس کے متعلق عوامی رائے کیا ہے؟

بس کرو کی بانی ماہا شہزاد کے مطابق اسلام آباد میں لوگ اپنی ماہانہ آمدنی کا 20 سے 50 فیصد پیٹرول پر لگانے پر مجبور ہیں جبکہ یہاں رہائش بھی ملک کے دیگر شہروں کی نسبت مہنگی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بڑھتی ہوئی پیٹرول کی قیمتوں کے باعث بہت سے ایسے افراد بھی آفس جانے کے لیے اب یہ سروس استعمال کر رہے ہیں جن کے پاس اپنی ذاتی گاڑیاں ہیں۔

سدرہ خان بہاولپور کی رہائشی ہیں اور اسلام آباد میں کارپوریٹ سیکٹر سے وابستہ ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ بس کرو سروس استعمال کرنے سے پہلے ان کی آمدنی کا 30 فیصد روزانہ دفتر آنے جانے پر خرچ ہو رہا تھا اور وہ معمولی بچت بھی نہیں کر پا رہی تھیں۔ بس کرو سے نا صرف ان پر مالی دباؤ کم ہوا ہے بلکہ اس کی منی  وین میں وہ بنا کسی خوف سفر کر لیتی ہیں۔

سدرہ کے مطابق بس کرو کی ایپ کا استعمال نہایت آسان ہے۔ سستی سواری اور نئے فیچرز کی وجہ سے خواتین ورکرز اس سروس کو ترجیح دے رہی ہیں۔

مستقبل میں بس کرو کی پلاننگ کیا ہے؟

ماہا شہزاد نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ملک کے تین بڑے شہروں میں کامیابی سے آپریشن جاری ہے اور حال ہی میں سٹارٹ اپ نے دو اعشاریہ پانچ ملین ڈالر کا ریونیو بھی حاصل کیا ہے۔ انہیں امید ہے کہ سن 2024 کے اوائل تک یہ مزید منافع بخش ہو جائے گا۔

ماہا کے مطابق ان کا منصوبہ ہے کہ تین بڑے شہروں میں 40 ہزار سے زائد منی  وین اور منی بس ڈرائیورز کے ساتھ مل کر سکول اور کالج جانے والی بچیوں اور نوجوان لڑکیوں کو محفوظ اور سستی سواری فراہم کی جائے۔ اس مقصد کے لیے ان کی ٹیم سکولوں، کالجز اور دیگر پارٹنرز کے ساتھ معاہدے بھی کر رہی ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ حال ہی میں ملنے والی پری سیڈ فنڈنگ سے سٹارٹ اپ کو ملک کے دیگر شہروں تک پھیلانے، پرائیویٹ ٹرانسپورٹ سروسز کے ساتھ کاربن کا اخراج روکنے اور ماحول کی حفاظت کے متعدد منصوبے بھی زیر غور ہیں۔

کراچی میں خواتین کے لیے مخصوص پنک بس سروس