1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’بس! بہت ہو چکا‘، افغان صدر کی تازہ تشدد پر برہمی

عاطف بلوچ14 دسمبر 2014

افغان صدر اشرف غنی نے مذہبی اور قبائلی رہنماؤں پر زور دیا ہے کہ وہ باغیوں کے خونریز حملوں کو روکنے اور ملک میں قیام امن کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔ انہوں نے یہ عزم بھی ظاہر کیا ہے کہ ان کی حکومت شکست تسلیم نہیں کرے گی۔

https://p.dw.com/p/1E3uC
تصویر: Dan Kitwood/WPA Pool/Getty Images

افغان صدر اشرف غنی نے ملک میں ہونے والے خونریز حملوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے مذہبی و قبائلی رہنماؤں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ بھی ان دہشت گردانہ کارروائیوں کی مذمت کریں۔ اتوار کے دن غنی کا یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے، جب ہفتے کے دن طالبان باغیوں کی پرتشدد کارروائیوں کی وجہ سے انیس افراد مارے گئے ہیں۔

افغانستان میں صرف گزشتہ ماہ ہی بارہ خود کش حملے کیے گئے۔ حالیہ دنوں کے دوران تشدد میں اضافہ نہ صرف کابل حکومت کے لیے باعث پریشانی ہے بلکہ عالمی سطح پر بھی یہ تحفظات شدید ہو گئے ہیں کہ نیٹو فوجی مشن کے بعد افغانستان میں ایک مرتبہ پھر سکیورٹی کی صورتحال انتہائی خراب ہو سکتی ہے۔

Afghanistan Polizei Selbstmordattentat in Kabul 13.12.2014
ہفتے کے دن طالبان باغیوں کی پرتشدد کارروائیوں کی وجہ سے انیس افراد مارے گئے ہیںتصویر: REUTERS/Omar Sobhani

افغان صدر اشرف غنی نے ان حملوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا، ’’یہ حملے اب مزید قابل قبول نہیں ہیں۔ یہ نہ تو اسلامی ہیں اور نہ ہی انسانی۔‘‘ اقوام متحدہ کی طرف سے منائے جانے والے ’انسانی حقوق کے دن‘ کی مناسبت سے منعقد ہوئی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اشرف غنی نے مزید کہا، ’’ہمارے معاشرے کو اس تشدد کے خلاف آواز بلند کرنے کی ضرورت ہے۔ میں بالخصوص علماء، قبائلی لیڈران اور سول سوسائٹی کے ممبران سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ آگے بڑھیں اور کہیں کہ یہ تشدد اب قابل قبول نہیں ہے۔‘‘

ملک کے مختلف علاقوں میں ہونے والے حملوں کے تناظر میں افغان صدر غنی نے کہا، ’’ پکتیکا یا یحییٰ خیل کے معصوم بچوں کا کیا قصور تھا؟ وہ تو صرف والی وال کا میچ کھیل رہے تھے۔ یہاں ہمارے معاشرے کو باآواز بلند کہنا ہو گا کہ بس بہت ہو چکا ہے۔ یہ مزید قابل قبول نہیں ہے۔‘‘ اس موقع پر افغان صدر کی آواز میں ایک غصہ اور تکلیف عیاں تھی۔ واضح رہے کہ گزشتہ ماہ افغان صوبے پکتیکا میں والی وال کے ایک میچ کے دوران ہونے والے خود کش حملے کے نتیجے میں پچاس افراد ہلاک جبکہ ساٹھ سے زائد زخمی ہو گئے تھے۔

اشرف غنی نے کہا کہ وہ ان حملوں سے حوصلہ نہیں ہاریں گے، ’’افغانستان گزشتہ پانچ ہزار سال سے موجود ہے جبکہ یہ مزید پانچ ہزار سال تک برقرار رہے گا۔‘‘ یہ امر اہم ہے کہ افغانستان میں یہ تازہ تشدد ایسے وقت میں بڑھتا جا رہا ہے جب رواں دو ہفتوں بعد یعنی اکتیس دسمبر کو نیٹو کا تیرہ سالہ فوجی مشن اختتام پذیر ہو رہا ہے۔