1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بس بُک لائبریری: نوجوانوں تک کتابیں پہنچانے کا انوکھا ذریعہ

Unbreen Fatima25 جون 2013

ایک حالیہ حکومتی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 2015 تک نوجوانوں میں شرح خواندگی سمیت دیگر میلینئم اہداف کا حصول مشکل ہے۔ ملک کی مجموعی شرح خواندگی 58 فیصد ہے جبکہ ہزاریہ اہداف کے مطابق یہ شرح 88 فیصد تک لے جانا ہے۔

https://p.dw.com/p/18vMw
تصویر: Alif Laila Bus Book Society

ان حالات میں پاکستان میں ایک غیر حکومتی تنظیم نے بچوں اور نوجوانوں میں پڑھنے کی لگن اور ان تک کتابیں پہچانے کے لیے ایک انتہائی دلچسپ اور مؤثر ذریعہ اختیار کر رکھا ہے۔ یہ ذریعہ ہے بس لائبریری۔

اس کا مقصد یہ ہے کہ جو بچے خود لائبریری نہیں آسکتے، کتابیں خود ان کے پاس پہنچ جائیں
اس کا مقصد یہ ہے کہ جو بچے خود لائبریری نہیں آسکتے، کتابیں خود ان کے پاس پہنچ جائیںتصویر: Alif Laila Bus Book Society

لاہور کے علاقے گلبرگ کے ایک کمیونٹی پارک میں گھنے درختوں کے سائے تلے ایک بس کھڑی ہے۔ رنگ برنگ کارٹونوں کی تصاویر سے سجی اس بس میں 8 سے 14 برس کی عمر کے بچے نہایت دلچسپی کے ساتھ کہانی کی کتابیں پڑھنے میں مگن ہیں۔ یہ ہے پاکستان میں بچوں کی پہلی موبائل بس لائبریری، جسے الف لیلیٰ بُک بس لائبریری کا نام دیا گیا ہے۔ بس میں داخل ہوتے ہی دلکش تزین و آرائش، شیلف میں سلیقے سے سجی رنگا رنگ کتابیں، آرام دہ فلور کُشن اور ایک کونے میں چھوٹی عمر کے بچوں کے لیے مختص کی گئی جگہ پر سجائے گئے کھلونے، بچوں کی دلچسپی کو فوری طور پر اپنی جانب راغب کر لیتے ہیں۔ یہاں موجود بعض بچے کہتے ہیں کہ ان کے لیے یہ کسی بھی لائبریری میں کتابیں پڑھنے کا یہ پہلا موقع ہے اور یہاں ایک دفعہ آنے کے بعد وہ بار بار اس لائبریری میں اپنی پسندیدہ کتابیں پڑھنے کے لئے رخ کرتے ہیں: ’’یہ بہت اچھی لائبریری ہے۔ یہاں بہت ہی اچھی بُکس ہیں۔ یہاں سے جانے کا دل نہیں چاہتا اسلئے میں یہاں روز آتی ہوں‘‘

الف لیلیٰ بُک بس سوسائٹی نامی غیر سرکاری تنظیم نے 35 برس قبل اس لائبریری کی بنیاد ڈالی تھی۔ اس منصوبے سے وابستہ سحر نے ڈوئچے ویلے سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ بچوں کو کتب بینی کی جانب راغب کرنے کے لیے پاکستان میں پہلی بار اس خیال کو متعارف کروایا گیا تھا، ’’ابتدا میں ہم نے یہ لائبریری ایک ڈبل ڈیکر بس میں شروع کی تھی جو لاہور میں چلا کرتی تھی۔ یہ بات ہے 1978-79 کی۔ اس کے بعد ڈبل ڈیکر بسیں چلنا بند ہو گئی لیکن ہم نے اس لائبریری کو جاری رکھا جو اب بھی موجود ہے جہاں بچے آج بھی آتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہماری موبائل لائبریری بھی ہے جو اسکولوں میں جاتی ہے۔ یہ پاکستان میں اپنی نوعیت کی پہلی لائبریری ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ جو بچے خود لائبریری نہیں آسکتے، کتابیں خود ان کے پاس پہنچ جائیں۔‘‘

اس لائبریری کو ابتدا میں نجی اسکولوں کے طالبعلوں کو اپنی جانب مائل کیا۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہاں سرکاری اسکولوں کے بچوں نے بھی دلچسپی لینا شروع کردی۔ یہاں کی لائبریرین اسماء مشتاق کے مطابق روزانہ کی بنیاد پر تعطیلات میں تقریباً 100 سے زائد بچے کتب بینی کا شوق پورا کرنے آتے ہیں۔

دو موبائل لائبریریاں لاہور کے مختلف اسکولوں میں لے جائی جاتی ہیں
دو موبائل لائبریریاں لاہور کے مختلف اسکولوں میں لے جائی جاتی ہیںتصویر: Alif Laila Bus Book Society

الف لیلیٰ موبائل بُک لائبریری اب صرف لاہور میں ہی نہیں بلکہ سحر کے مطابق دیگر شہروں میں بچوں کو کتب بینی کی جانب راغب کرنے میں کردار ادا کرنے کے لئے پُر عزم ہے، ’’لاہور میں موجود ڈبل ڈیکر بس میں موجود لائبریری کو اب صرف کم عمر بچوں کے لیے مختص کر دیا گیا ہے۔ ہماری یہاں ساتھ ہی ایک ریفرنس لائبریری ہے جس میں تین سے چار ہزار کتابیں موجود ہیں۔ اس کے علاوہ دو موبائل لائبریریاں ہیں جو لاہور کے مختلف اسکولوں میں لے جائی جاتی ہیں۔ ان میں سے ایک لائبریری لاہور کے نواح میں شیخوپورہ تک بھی جاتی رہی ہے۔ اب ایک حالیہ منصوبے کے مطابق ہم اس موبائل لائبریری کو ملتان اور مظفر گڑھ کے 40 اسکولوں تک لے جائیں گے جبکہ 140 اسکولوں میں ہم لائبریری کارنر بنا رہے ہیں۔‘‘

اس بس لائبریری کی کامیابی کو سامنے رکھتے ہوئے اگر پاکستانی حکومت اور بین الاقوامی تنظیمیں اس پروگرام کو وسعت دینے کے لیے تعاون فراہم کرتی ہیں تو نوجوانوں تک کتابیں لے جانے کا یہ سلسلہ پورے ملک میں پھیل سکتا ہے اور نئی نسل کی علم اور معلومات کی ضروریات کو پورا کر سکتا ہے۔

رپورٹ: عنبرین فاطمہ، کراچی

ادارت: افسر اعوان