1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

برلن کے اسکولوں میں اسلامک اسٹیٹ کا چرچا

کشور مصطفیٰ26 اکتوبر 2014

جرمن دارالحکومت برلن کے مرکز میں قائم کارل اوسیئٹسکی ہائی اسکول کے ایک ترک نژاد ٹیچر نالان کیلچ کا کہنا ہے کہ آج کل اس اسکول میں ہر کسی کی زبان پر ’اسلامک اسٹیٹ‘ (آئی ایس) کا نام ہے۔

https://p.dw.com/p/1DcMd
تصویر: dapd

اس اسکول میں زیر تعلیم طلبا کی اکثریت کا تعلق تُرک گھرانوں سے ہے اور یہ مسلمان ہیں۔ ان سب نے فیس بُک یا واٹس اَپ پر اسلامک اسٹیٹ کی شام میں پیش قدمی اور شام کے بحران سے متعلق ویڈیوز دیکھ رکھی ہیں اور یہی ایک موضوع اِن دنوں اِن نوجوان طلبا کی دلچسپی اور جستجو کا مر کز بنا ہوا ہے۔ اسلام کی یہی بنیاد پرست شکل اُن سینکڑوں نوجوانوں کی ترغیب کا سبب بنی ہے، جنہوں نے جرمنی چھوڑ کر مشرق وسطیٰ پہنچنے اور وہاں انتہا پسند جہادی تنظیم آئی ایس میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا۔

"ہر کوئی اسی کے بارے میں پوچھ رہا ہے، ٹیلی وژن پر بس یہی ایک موضوع چل رہا ہے"، یہ کہنا ہے نالان کیلیچ کا، جن کے بقول اسکول انتظامیہ اپنے طلبا کی ضروریات اور مطالبات پورے کرنا چاہتی ہے۔ طلبا عسکریت پسندوں کے موضوع پر بحث چاہتے ہیں تاہم ساتھ ہی انتظامیہ کی یہ کوشش بھی ہے کہ ان طلبا کو انتہا پسندی کو مسترد کرنے کے قابل بنانے کے لیے ان میں شعور پیدا کیا جائے۔

اس اسکول سے تعلق رکھنے والے چند نوجوانوں سے بنیاد پرست سوچ کے حامل مسلم مبلغین نے اسکول سے باہر برلن کے شاپنگ ڈسٹرکٹس میں رابطہ بھی کیا ہے۔ یہ امر اسکول انتظامیہ کے لیے شدید تشویش کا باعث بنا ہوا ہے اور اس سے برلن کے اسکولوں سمیت یورپ بھر میں اس امر کی سخت ضرورت پیدا ہو گئی ہے کہ ناپختہ اذہان کو انتہا پسندی کے رجحان سے بچانے کی کوشش کی جائے اور انتہاپسندی کی طرف مائل خاندانوں میں بنیاد پرستی کے خاتمے کے لیے پروگرام تیار کیے جائیں۔

Veranstaltung Unter dem Motto: "Muslime stehen auf gegen Hass und Unrecht"
برلن میں آباد مسلمانوں کی طرف سے حال ہی میں اسلامک اسٹیٹ کی انتہا پسندی کی مذمت کی علامت کے طور پر ایک دن منایا گیاتصویر: DW/A. Almakhlafi

برلن حکومت کے ایماء پر نوجوان مسلمانوں کو بنیاد پرستی کی طرف مائل ہونے سے بچانے کے لیے ایک پائلٹ پروجیکٹ شروع کیا گیا ہے۔ اس کے لیڈر ایکان ڈیمیرل کہتے ہیں، "2005 ء میں جب ہم نے پہلے پہل انتہا پسندی کے بارے میں ناقص قسم کی ویڈیوز دیکھی تھیں تو ہمیں ان پر ہنسی آتی تھی تاہم بالکل لغو اور فضول سی ایک نئی سیاسی اور مذہبی مہم نے جنم لیا ہے، جس پر ہم سب حیران ہیں اور تشویش میں مبتلا ہیں"۔

دریں اثناء جرمن حکام کے اندازوں کے مطابق 450 نوجوان جرمنی سے شام پہنچ چُکے ہیں، جہاں وہ اسلامک اسٹیٹ کی جہادی فورسز میں شمولیت اختیار کرنا چاہتے ہیں جبکہ پورے یورپ سے شام پہنچنے والے ان نوجوانوں کی تعداد لگ بھگ تین ہزار ہے، جن میں سے کئی شام میں مارے بھی گئے ہیں۔ کم از کم پانچ نے وہاں خود کُش بم حملے کیے ہیں۔ شام کی طرف جہاد کی غرض سے بڑھنے والی اس لہر میں کسی قسم کی سُست روی نظر نہیں آ رہی۔

Angela Merkel Schulklasse
جرمن چانسلر انگیلا میرکل کا ایک اسکول کا دورہتصویر: Reuters

برلن حکومت کے مطابق وہ چاہتی ہے کہ ایسے نوجوانوں تک جلد سے جلد پہنچا جائے، قبل اس کے کہ ان میں انتہا پسندی کا رجحان پیدا ہو جائے۔ اس کے لیے اسکول انتظامیہ، سماجی کارکُن اور مسلم کمیونٹی کا تعاون لیا جا رہا ہے۔ حکام جزوی طور پر وہی تکنیک استعمال کرنا چاہتے ہیں، جو جرمنی میں نیو نازی گروپوں اور سامی مخالف جذبات بھڑکنے کے خدشات سے نمٹنے کے لیے بروئے کار لائے جاتے ہیں۔

جرمنی میں بنیاد پرستی کے خلاف اور انتہا پسندی کے پھیلاؤ کی روک تھام سے متعلق اقدامات کے اختیارات تمام 16 جرمن صوبوں کی حکومتوں کو دیے گئے ہیں اور وفاقی حکومت نے سول گروپوں کی جانب سے چلائے جانے والے پروجیکٹس کے لیے فنڈز بہت کم کر دیے ہیں۔

ماحول پسند گرین پارٹی کی طرف سے وفاقی حکومت پر الزام عائد کیا جا رہا ہے کہ وہ انتہا پسندانہ رجحان کے پھیلاؤ کی روک تھام کے سلسلے میں قومی سطح پر کوئی اسٹریٹیجی نہیں بنا رہی ہے نیز حکومت سول سوسائٹی کے ایسے پروجیکٹس کے لیے فنڈز کی ناکافی فراہمی کی ذمہ دار ہے جو نوجوانوں میں معتبریت کے حوالے سے نہایت اہم ہیں اور گہرے اثرات مرتب کر سکتے ہیں۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید