1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

برطانیہ: خواتین کی اسمگلنگ، جعلی شادیاں اور جنسی کاروبار

امتیاز احمد24 فروری 2015

برطانوی پولیس ملک میں موجود ایسے خفیہ گروہوں کا سراغ لگانے میں مصروف ہے، جو مشرقی یورپی ملکوں سے ایسی خواتین کو اسمگل کرتے ہیں جنہیں نہ صرف شادیوں پر مجبور کیا جاتا ہے بلکہ ان سے جنسی کاروبار بھی کروایا جاتا ہے۔

https://p.dw.com/p/1Egd4
Symbolbild Prostitution
تصویر: picture-alliance/AP

برطانیہ میں ایک پولیس اسٹیشن کے ایک کمرے میں انسانوں کی اسمگلنگ روکنے کے خلاف ایک بڑے آپریشن کی تیاریاں کی جا رہی ہیں۔ پولیس افسران کے اردگرد فائلوں اور تصویروں کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں اور وہ جرائم کے ایک انتہائی پیچیدہ نیٹ ورک سے پردہ اٹھانے کی کوششوں میں ہیں۔ ایک وائٹ بورڈ پر کئی مردوں، عورتوں اور بچوں کے چہروں کے ارد گرد سرخ مارکر سے دائرے بنے ہوئے ہیں جبکہ ان افراد کے شہریت، موجودہ رہائشی پتے اور نام کالے رنگ سے لکھے ہوئے ہیں۔

قبل ازیں برطانیہ میں ’آپریشن رِیٹریور‘ ستمبر میں اس وقت کیا گیا تھا، جب انگلینڈ کے شمال میں پولیس کو سلوواکیہ کی ایک خاتون نے اطلاع دی تھی کہ اسے دھوکے سے برطانیہ لایا گیا اور جنوبی ایشیا کے ایک آدمی کے ساتھ شادی کرنے پر مجبور کیا گیا۔ وہ جنوبی ایشیائی باشندہ برطانیہ میں غیر قانونی طور پر مقیم تھا اور شادی کے ذریعے برطانیہ میں مستقل رہائش کا اجازت نامہ حاصل کرنا چاہتا تھا۔

انسانوں کی اسمگلنگ کرنے والے ایک گروپ کی طرف سے اس خاتون کو ہزاروں پاؤنڈ کے بدلے بیچ دیا گیا تھا۔ اس کیس نے آج کے برطانیہ میں جدید غلامی جیسے مسئلے پر روشنی ڈالی تھی، جو کہ برطانیہ کا ایک چھپا ہوا مسئلہ ہے۔ گریٹر مانچسٹر پولیس کی ایک ٹیم کی قیادت کرنے والے ایجنٹ، انسپکٹر جم فاکنر کا کہنا ہے، ’’جدید غلامی یہ نہیں ہے کہ انسان کو زنجیروں میں جکڑا جائے۔ آج کی غلامی یہ ہے کہ کسی کو اس کی مرضی کے خلاف ایسا کام کرنے پر مجبور کیا جائے ، جو وہ نہ کرنا چاہتا ہو اور متعلقہ فرد کے پاس کوئی دوسرا راستہ بھی نہ ہو۔ پھر انسانوں کے اسمگلر اس پر اس قدر کنٹرول رکھتے ہوں کہ وہ ان سے ڈرتا بھی ہو۔‘‘

سلوواکیہ کی اس خاتون کے کیس کے بعد سے برطانیہ کے سات جاسوس پولیس اہلکار متعدد ایسے کیس حل کر چکے ہیں، جن میں مشرقی یورپی خواتین کو برطانیہ لایا جاتا تھا اور پھر ان کی جبری شادیاں کرائی جاتی تھیں یا پھر انہیں فیکٹریوں میں کام کرنے پر مجبور کیا جاتا تھا۔

اندازوں کے مطابق برطانیہ میں ایسے تقریباﹰ تیرہ ہزار مثاثرہ افراد غلامی کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ ان افراد کو کھیتوں میں کام کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے، یا پھر انہیں فیکٹریوں یا قحبہ خانوں میں بیچ دیا جاتا ہے۔ اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے برطانوی حکومت نے سن دو ہزار تیرہ میں پارلیمان میں ایک نئے قانون کا مسودہ بھی پیش کیا تھا، جس کے تحت انسانوں کے اسمگلروں کو عمر قید کی سزا سنائی جا سکے گی۔ امید ہے کہ جدید غلامی سے متعلق یہ قانونی بل مئی میں ہونے والے آئندہ انتخابات سے پہلے ہی منظور کر لیا جائے گا۔

پولیس کے مطابق جن لڑکیوں یا افراد کو اسمگل کیا جاتا ہے، ان کے ذہنوں میں خوف بٹھا دیا جاتا ہے کہ پولیس کو اطلاع دینے کی صورت میں بھی ان کی صورتحال تبدیل نہیں ہو گی بلکہ انہی کو نقصان اٹھانا پڑے گا۔ دوسرے یہ کہ بہت سی خواتین اپنے حقوق سے لاعلم ہوتی ہیں اور اسمگلر اسی بات کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔