1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

برطانوی لڑکیوں کی جبری شادیوں کے خلاف اب خصوصی ٹیمیں تعینات

2 ستمبر 2019

مغربی ممالک میں مقیم پاکستانی، بھارتی اور بنگلہ دیشی خاندان اپنی بچیوں کو زبردستی اپنے آبائی ممالک میں شادیاں کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔ اب اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے برطانوی ہوائی اڈوں پر خصوصی اہلکار تعینات کر دیے گئے ہیں۔

https://p.dw.com/p/3OtEL
Großbritannien | Flughafen Heathrow: Operation Limelight gegen erzwungene Ehen
تصویر: Getty Images/AFP/D. Leal-Olivas

رواں برس موسم گرما کی چھٹیوں کے آغاز سے برطانوی اداروں نے جبری شادیوں کے خلاف ایک مہم کا آغاز کر رکھا ہے۔ اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے ملک بھر کے مختلف ہوائی اڈوں، بندرگاہوں اور ریلوے اسٹیشنوں پر خصوصی اہلکار تعینات کیے گئے ہیں۔

پولیس اور دیگر محکموں کی مشترکہ ٹیمیں خاص طور پر ان خاندانوں پر نظر رکھتی ہیں، جن کی بچیاں جوان ہیں اور جن کا آبائی طور پر تعلق ایشیائی ممالک سے ہوتا ہے۔ یہ خصوصی ٹیمیں برطانوی قوانین کی مدد سے اس بات کو روکنا چاہتی ہیں کہ کسی لڑکی کی شادی اس کی مرضی کے بغیر اور زبردستی نہ کی جائے۔

لندن کے ہیتھرو ایئر پورٹ پر ایسی ہی ایک خصوصی ٹیم نے بھارتی شہر بنگلور سے آنے والے ایک خاندان کو روک رکھا ہے۔ اس خاندان کے ساتھ موجود تیرہ سالہ لڑکی کے بازو پر نیل پڑے ہوئے ہیں اور وہ کچھ خوفزدہ بھی نظر آ رہی ہے۔ انہی آثار و شواہد کی بنیاد پر اس خاندان کو روک لیا گیا۔

Großbritannien | Flughafen Heathrow: Operation Limelight gegen erzwungene Ehen
تصویر: Getty Images/AFP/D. Leal-Olivas

ہر ایک سے الگ الگ کی جانے والی تفتیش کے مطابق اس خاندان کا کہنا ہے کہ وہ کسی رشتے دار کے انتقال کی وجہ سے بھارت گئے تھے اور لڑکی کو چوٹیں راستے میں پیش آنے والے ایک حادثے کی وجہ سے آئیں۔ اسی دوران برطانوی حکام کو یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ اس لڑکی کے لیے کیرالہ میں ایک رشتہ ڈھونڈ لیا گیا ہے اور وہ لڑکا بھی جلد ہی برطانیہ آ سکتا ہے۔

ان برٹش اہلکاروں نے تیرہ سالہ لڑکی سے بات چیت کرتے ہوئے اسے واضح طور پر بتایا کہ برطانیہ میں جبری شادی قانوناﹰ ایک جرم ہے اور وہ کسی بھی وقت شادی سے انکار کر دینے کا حق رکھتی ہے۔ برطانیہ نے اپنے ہاں سن دو ہزار چودہ سے جبری شادی کو جرم قرار دے رکھا ہے اور اس کی خلاف ورزی کرنے والے کو سات سال تک قید کی سزا سنائی جا سکتی ہے۔

برطانیہ میں سن دو ہزار اٹھارہ میں سترہ سو سے زائد جبری شادیوں کے واقعات سامنے آئے تھے۔ سن دو ہزار سترہ کے مقابلے میں یہ سالانہ تعداد سینتالیس فیصد زیادہ تھی۔ تجزیہ کاروں کے مطابق اصل تعداد اس سے بھی کہیں زیادہ بنتی ہے۔ نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق ایسے زیادہ تر واقعات ایسے برطانوی شہریوں کے حوالے سے سامنے آتے ہیں، جن کا تعلق پاکستان، بھارت یا بنگلہ دیش سے ہوتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ برطانیہ میں خصوصی ٹیمیں ایسے مسافروں پر نظر رکھتی ہیں، جو جنوبی ایشیا یا پھر مشرق وسطیٰ سے واپس آ رہے ہوتے ہیں۔ ہیتھرو ایئر پورٹ کی خصوصی ٹیم میں شامل ٹروڈی گیٹنز کا نیوز ایجنسی اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ''یہ مسئلہ صرف جنوبی ایشیائی ممالک کا نہیں ہے بلکہ کئی دیگر ممالک کی ثقافتوں کا بھی ہے۔‘‘

Großbritannien | Flughafen Heathrow: Operation Limelight gegen erzwungene Ehen
تصویر: Getty Images/AFP/D. Leal-Olivas

برطانیہ میں ایسے کیس بھی سامنے آ چکے ہیں، جن میں ایک دو سالہ لڑکی تک کا رشتہ بھی طے کر دیا گیا تھا اور ایک کیس میں تو الزائمر کے ایک اسّی سالہ مریض کی شادی اس کی دیکھ بھال کرنے والی خاتون سے کر دی گئی تاکہ اسے اس شخص کی جائیداد مل سکے۔

اعداد و شمار کے مطابق ایک تہائی متاثرہ لڑکیوں کی عمریں اٹھارہ برس سے بھی کم ہوتی ہیں جبکہ اس مسئلے کا سب سے زیادہ سامنا بھی لڑکیوں یا خواتین کو ہی کرنا پڑتا ہے۔ اس حوالے سے سب سے پہلی سزا ویسٹ مڈلینڈز میں سن دو ہزار اٹھارہ میں ایک پاکستانی نژاد برطانوی خاتون کو سنائی گئی تھی اور اس خاتون کو جیل جانا پڑا تھا۔ اس خاتون کی تیرہ سالہ بیٹی کو اس کے منگیتر نے پاکستان میں جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا تھا۔

اسی ٹیم میں شامل ایک خاتون اہلکار پرم سندھو کا کہنا تھا، ''ہمارا مقصد یہ نہیں ہے کہ پورے خاندان یا پھر والدین کو مجرم بنا کر پیش کیا جائے۔ ہمارا مقصد صرف اور صرف نوجوانوں کو تحفظ فراہم کرنا ہے۔‘‘ ٹروڈی گیٹنز بتاتی ہیں کہ انہیں متعدد مرتبہ ایسی لڑکیاں بھی ملیں، جنہوں نے اپنی جبری شادیوں کے واقعات کو 'زندہ درگور کر دیے جانے‘ کے مترادف قرار دیا۔

ا ا / م م (اے ایف پی)