1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بدحال افغانستان میں دہشت گردی کے خطرات مسلسل بڑھتے ہوئے

22 فروری 2022

طالبان افغان عوام پر اپنے نظریات مسلط کرنے کی تو تمام تر کوششیں کر رہے ہیں مگر عام شہریوں کو درپیش سنگین مسائل کے حل کے لیے کچھ بھی نہیں کر سکتے۔ یہ صورت حال دہشت گردی کے خطرات میں مسلسل اضافے کا پیش خیمہ ہے۔

https://p.dw.com/p/47Q1Q
Afghanistan | sich ergebene IS Kämpfer in Jalalabad
تصویر: Noorullah Shirzada/AFP/Getty Images

 

افعان طالبان نے نیٹو اور اس کے اتحادیوں کے علاوہ سول سوسائٹی کے اراکین پر خونریز حملوں کے ذریعے اقتدار تو اپنے ہاتھ میں لے لیا لیکن اب انہیں ان تمام دہشت گرد عناصر کا معاشرے سے خاتمہ کرنا ہو گا جو خود طالبان کے لیے بھی مشکلات کا سبب بن چکے ہیں۔ اب دارالحکومت کابل کے رہائشی بھی خونریز حملوں سے محفوظ نہیں رہے۔ اس کی مثال گزشتہ نومبر میں کابل میں ہونے والے دو بڑے کار بم دھماکے ہیں۔

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل  کی طرف سے القاعدہ اور 'اسلامک اسٹیٹ‘ یا داعش کے خلاف پابندیوں کی نگرانی کے لیے ایک ٹیم مقرر کی گئی ہے۔ اس ٹیم کی مرتب کردہ رپورٹ فروری کے اوائل میں سامنے آئی، جس میں کہا گیا ہے، ''طالبان کی فتح کے بعد افغانستان ممکنہ طور پر دہشت گرد تنظیم القاعدہ اور اس جیسی دیگر تنظیموں کے لیے ایک ایسی محفوظ پناہ گاہ بن جائے گا جن کے روابط وسطی ایشیا اور اس سے بھی آگے تک کے علاقوں  سے ہوں گے۔‘‘ افغانستان میں سرگرم 'اسلامک اسٹیٹ‘ کی شاخ داعش خراساں کا گرچہ افغانستان میں محدود علاقوں پر کنٹرول ہے، لیکن یہ اپنی دہشت گردانہ سرگرمیوں سے ثابت کر چکی ہے کہ یہ مستقبل میں بہت سنگین اور افغانسان کو بہت مہنگے پڑنے والے حملوں کی اہل ہے۔

سابق طالبان کی بھرتی

اقوام متحدہ کی اس رپورٹ کے مطابق 'اسلامک اسٹیٹ خراسان‘ یا آئی ایس کے پاس اس وقت تقریباﹰ چار ہزار جنگجو ہیں، جن میں سے دو ہزار تک کا تعلق بیرونی ممالک سے ہے۔ انہیں سقوط کابل اور افغانستان میں طالبان کی فتح کے بعد افغانستان کی جیلوں سے رہا کر دیا گیا تھا۔ افغانستان کے امور کے ماہر کونراڈ شیٹر کا کہنا ہے کہ داعش میں بھرتی ہونے والے جنگجوؤں میں سے زیادہ تر افغان ہیں، جو ابھی کچھ عرصہ پہلے تک طالبان کی صفوں میں شامل تھے۔

Afghanistan Taliban Verstärkung für die Stadt Jalalabad
جلال آباد پر افغان طالبان کا زور رہا ہےتصویر: Wakil Kohsar/AFP

شیٹر افغانستان ورکنگ گروپ (AGA) کے بورڈ کے ممبر بھی ہیں۔ انہوں نے ڈوئچے ویلے کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا، ''یہ افراد اپنی ذمہ داریوں اور اپنے لیے تفویض شدہ فرائض کے عوض انہیں جو کچھ ملا ہے، اس سے مطمئن نہیں تھے۔ طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد ان کے پاس اپنے جنگجوؤں کو مادی طور پر یا بااثر عہدوں سے نوازنے کے لیے ذرائع کی کمی تھی۔ چنانچہ بہت سے نوجوان جنگجو ایسے تھے، جنہوں نے طالبان کی فتح کے بعد اپنی توقعات اور ان سے جڑے اپنے مقاصد کو ختم ہوتے دیکھا۔ اس حالتِ مایوسی میں ان کی توجہ 'اسلامک اسٹیٹ خراسان‘ کی طرف مبذول ہوئی، جس نے انہیں ان کی خواہشات کے مطابق  پیش کش کی۔‘‘

کونراڈ شیٹر تاریخ، سیاست  اور نظریے پر ایک کتاب کی تصنیف بھی کر چکے ہیں اور یہ کتاب مئی میں شائع ہونے والی ہے۔

سول متاثرین

داعش کے جہادی بارہا طالبان کے اس غیر سمجھوتہ پسندانہ رویے کا اعتراف کر چکے ہیں۔ داعش خراسان کے ایک جنگجو نے گزشتہ نومبر میں آن لائن میگزین 'دا ڈپلومیٹ‘ کو ایک بیان دیتے ہوئے کہا تھا، ''طالبان اسلام اور شریعت کو مناسب طریقے سے نافذ نہیں کر رہے اور اس کی بجائے کافروں کے لیے کام کر رہے ہیں۔‘‘ اس جنگجو نے اپنے بیان میں 'کافر‘ کا جو لفظ استعمال کیا، اس سے اس کی مراد 'پاکستانی ریاست‘ تھی، جس کے ساتھ طالبان کے ہمیشہ قریبی تعلقات رہے ہیں۔ اسی طرح کابل سے 160 کلومیٹر مشرق کی طرف واقع جلال آباد سے تعلق رکھنے والے ایک گروپ کے ایک جہادی نے اپنے ایک بیان میں کہا، ''ہم طالبان کو ہر قابل تصور طریقے یا ذریعے سے قتل کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔ پستول، رائفلیں اور دھماکا خیز مواد بھی۔ ہم اکثر بم حملوں کے لیے آٹو رکشے استعمال کرتے ہیں۔‘‘

Afghanistan Kandahar Selbstmordattentat des IS auf Schiiten-Moschee
اقلیتوں پر طالبان اور داعش کے حملے رکنے کا نام نہیں لیتےتصویر: Shiite Coordination Council of Afghanistan

گزشتہ ہفتے ایک ایسی ہی گاڑی کا معائنہ کرتے ہوئے طالبان کی فائرنگ سے ایک خاتون اور دو دیگر شہری ہلاک ہو گئے تھے۔ سرکاری اطلاعات کے مطابق رکنے کی ہدایت کیے جانے کے باوجود یہ آٹو رکشہ قندھار کی ایک چوکی پر نہیں رکا تھا، جس کے بعد اس پر فائرنگ شروع کر دی گئی تھی۔ خبر رساں ادارے ڈی پی اے کے مطابق گزشتہ دسمبر سے اب تک مختلف افغان صوبوں میں اس طرح کے کم از کم سات دیگر واقعات رونما ہوئے ہیں، جن میں ایک بچے سمیت متعدد شہری لقمہ اجل بنے۔

ادھر افغان طالبان بار بار یقین دلاتے رہے ہیں کہ وہ داعش کے جہادیوں کے خلاف پوری شدت سے کارروائی کر رہے ہیں۔ ترک خبر رساں ایجنسی انادولو کے مطابق گزشتہ دسمبر میں افغان طالبان کے ترجان ذبیح اللہ مجاہد نے ایک بیان میں کہا تھا کہ دہشت گرد تنظیم داعش کے 670 جنگجوؤں کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔ اس کے علاوہ افغانستان میں داعش کے 25 خفیہ کیمپوں کو بھی تباہ کر دیا گیا ہے۔

'دا ڈپلومیٹ‘ کے مطابق ان اعداد و شمار کے سامنے آنے کے باوجو یہ بات پورے یقین سے نہیں کہی جا سکتی کہ یہ حقیقت پر مبنی ہیں۔ اس جریدے کے مطابق طالبان کے داعش کے خلاف حملوں میں اکثر عام شہری بھی مارے جاتے ہیں۔ تاہم یہ بات طے ہے کہ طالبان کی کارروائیوں کے نتیجے میں گزشتہ دسمبر سے اب تک داعش کے خونریز حملوں کی تعداد کم ہوئی ہے، جس کا مطلب یہ بھی لیا جا سکتا ہے کہ ملک پر حکمران طالبان کے داعش کے خلاف اقدامات مؤثر ثابت ہو رہے ہیں۔

Afghanistan | Armut und Not in Kandahar
غربت اور بھوک افغان عوام کا سب سے بڑا مسئلہتصویر: Murteza Khaliqi/AA/picture alliance

سرحدوں سے بالا تر خطرات

افغانستان کی مجموعی صورت حال اس ریاست کے انسانی تباہی کی طرف بڑھتے جانے کی پیش گوئی کر رہی ہے۔ غیر ملکی مالی امداد کی بندش کے سبب  گزشتہ برس کی خشک سالی کو صرف جزوی طور پر ہی اور انسانی بنیادوں پر ہنگامی امداد سے دور کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس کے باوجود اس ملک کی معاشی بد حالی خشک سالی کے سبب لاحق خطرات کی نشاندہی بھی کر رہی ہے۔ اس کے اثرات ملک میں داعش خراسان کے مستقبل پر بھی پڑیں گے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ بات بعید از امکان نہیں کہ اگر افغانستان میں افراتفری پھیلتی ہے، تو ملکی اور غیر ملکی انتہا پسند قوتیں داعش خراسان میں شامل ہو جائیں گی۔

پاکستان کے قومی سلامتی کے مشیر معید یوسف نے اسلام آباد سے حالیہ میونخ سکیورٹی کانفرنس کے لیے اپنے پیغام میں کہا تھا، ''اگر وہاں انسانی بحران کی سی موجودہ صورت حال بہتر نہ ہوئی، تو افغانستان میں دہشت گردی کا خطرہ اس کی قومی سرحدوں کے اندر تک ہی محدود نہیں رہے گا۔‘‘

ک م / م م (کَیرسٹن کنِپ)