1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بحیرہ روم کے متنازعہ پانیوں سے ترکی کا بحری بیڑا واپس

14 ستمبر 2020

یونان نے مشرقی بحیرہ روم کے متنازعہ علاقوں میں توانائی کی دریافت کرنے والے ترکی کے بحری بیڑے کے وہاں سے نکلنے کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے کشیدگی میں کمی آئیگی۔

https://p.dw.com/p/3iQAn
Türkei Das seismisches Forschungsschiff Oruc Reis bei Istanbul
تصویر: Reuters/Y. Isik

یورپی یونین نے ترکی کو دھمکی دی تھی کہ اگر اس نے مشرقی بحیرہ روم کے متنازعہ علاقوں میں توانائی کی دریافت کے اپنے مشن کو فوری طور پر نہیں روکا تو اس پر پابندیاں عائد کر دی جائیں گی۔ اس کے بعد ترکی نے متنازعہ پانیوں میں توانائی کی تلاش میں سرگرداں اپنے جہاز 'اروک ریز' کو وہاں سے واپس بلا لیا جو اتوار کے روز اناطولیہ کی بندرگاہ پر پہنچ گیا۔ یونان  نے اسے خطے میں کشیدگی میں کمی کے لیے ایک مثبت اقدام قرار دیا ہے۔

یونان کے وزیر اعظم کریاکوس مٹسوٹاکِس نے صحافیوں سے بات چیت میں کہا، ''اروک ریز کی واپسی ایک مثبت قدم ہے، مجھے امید ہے کہ یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ ہم ترکی سے بات چیت کرنا چاہتے ہیں لیکن ایسے ماحول میں جو اشتعال انگیزی سے پاک ہو۔''

لیکن ترکی کے وزیر دفاع حلوسی آکار نے یونان کے اس دعوے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ترکی کا جہاز پہلے سے طے شدہ پروگرام کے تحت اپنی بندرگاہ پر واپس آیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ا س کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ  بحیرہ روم میں ترکی نے جو مہم شروع کر رکھی تھی اسے ترک کر دیا گیا ہے۔ انہوں نے ترکی کی سرکاری نیوز ایجنسی انادولو سے بات چیت میں کہا، '' اس بارے میں منصوبے کے تحت آگے بڑھنے اور پیچھے ہٹنے کا عمل جاری رہیگا۔''

ترک وزیر دفاع کا مزید کہنا تھا کہ ان متنازعہ پانیوں سے دور، جس پر ترکی اور یونان دونوں کا دعوی ہے، وہاں پر ملک اپنی نقل و حرکت  اور اپنے حقوق کو وہاں ترک نہیں کریگا۔

 مشرقی بحیرہ روم  میں تنازعہ

مشرقی بحیرہ روم کے پانیوں میں ترکی، یونان اور قبرص کے درمیان کوئی سرحد نہیں ہے اور اس علاقے میں گیس کے ذخائر سے مالا  مال بعض علاقوں پر تینوں ملک دعوی کرتے ہیں۔ ترکی کا موقف ہے کہ اس کا بحری بیڑہ اروک ریز جس علاقے میں توانائی کی دریافت میں لگا ہے اس پر اس کا قانونی طور پر حق ہے۔

آیا صوفیہ کے دروازے سب کے لیے کھلے رہیں گے، ترک صدر

یونان  اور یورپی یونین کے اعتراض کے باوجود ترکی کا جہاز یونانی جزیرہ کاسٹیلو ریزو کے پاس 10 اگست سے تعینات تھا۔ اس علاقے میں تیل کے ذخائر کا پتہ چلنے کے بعد سے ہی  حالات کشیدہ رہے ہیں۔ ترکی یونین اور قبرص کے درمیان اس پر بات چیت بھی ہوئی ہے تاہم ابھی تک اس کا کوئی نتیجہ بر آمد نہیں ہوا ہے۔

دو روز قبل ہی یونانی وزیر اعظم نے شمالی شہر تھسالونکی میں ایک عوامی خطاب میں کہا تھا کہ ملک کی فوج کو جدید بنانے کی ضرورت ہے اور اس مقصد کی خاطر ایتھنز حکومت جدید اور طاقتور ہتھیار خریدے گی۔ ان کا کہنا تھا، ''اب وقت آ گیا ہے کہ ملکی فوج کی صلاحیت کو بڑھایا جائے۔ ''  وزیر اعظم مٹسوٹاکِس نے کہا کہ ان کی حکومت اٹھارہ فرانسیسی رافیل جیٹ طیارے، چار جنگی بحری جہاز اور چار نیوی ہیلی کاپٹر خریدے گی۔ انہوں نے کہا کہ پندرہ ہزار نئے فوجی بھی بھرتی کیے جائیں گے جبکہ سائبر حملوں کی روکنے کے خاطر سرمایہ کاری کی جائے گی۔

  بحیرہ روم میں اس تنازعہ کے سبب حالیہ عرصے میں مغربی عسکری اتحاد نیٹو کے رکن ممالک یونان اور ترکی میں عسکری تصادم کا خطرہ زیادہ ہو گیا ہے۔ تازہ کشیدگی اس وقت ہوئی، جب گزشتہ ماہ ترک فوج نے بحیرہ روم کے ایسے متنازعہ پانیوں میں تحقیقاتی ٹیمیں روانہ کیں، جن پر یونان اپنا حق جتاتا ہے۔ جواب میں یونان نے بھی اپنے جنگی بحری جہاز ان پانیوں میں روانہ کر دیے۔

بحیرہ روم کے پاس واقع یورپی یونین کے سات رکن ممالک نے بھی ترکی پر پابندیوں کی حمایت کی تھی۔ اس ماہ کے اواخر میں یورپیئن کؤنسل کا اجلاس ہونے والا ہے جس میں اس مسئلے پر بھی بات چیت کا امکان ہے۔

ص ز/ ج ا (اے ایف پی، روئٹرز)

’ترکی یورپی یونین معاہدہ‘ خطرے میں، مہاجرین کہاں جائیں گے؟

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں