1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بحر ی قذاقی کے مسئلے پر کانفرنس ميں غور

12 اپریل 2012

دنيا کے سمندروں ميں تجارتی سرگرميوں کو سب سے بڑا خطرہ بحری قذاقوں سے لاحق ہے۔ ليکن قرن افريقہ اور مشرقی افريقی ممالک کی ساحلی حفاظتی فوج ان قذاقوں کے مقابلے کے ليے ضروری سازوسامان سے ليس نہيں ہے۔

https://p.dw.com/p/14c6D
تصویر: AP

جنوبی افريقہ ميں ان مسائل پر غور کرنے کے ليے بحری فوجی کمانڈروں کی سالانہ کانفرنس ہو رہی ہے۔

اس سال کے انڈين اوشن سمپوزيم کے اہم موضوعات ’خليج عدن ميں جہازرانی کی حفاظت‘، ’جہازرانی کے ميدان ميں بين الاقوامی جرائم، پيشہ گروہ اور ’بحر ہند ميں جہاز رانی کو درپيش خطرات‘ ہيں۔ علاقے کی بحری افواج کو زمانہء امن ميں ايک مشترکہ دشمن کا سامنا ہے اور وہ ہے گہرے سمندر ميں قذاق اور جرائم پيشہ گروہ۔

کيپ ٹاؤن ميں ہونے والی اس کانفرنس ميں دنيا کے تقريبا 30 اعلٰی بحری کمانڈر بحری قذاقی جیسے مسئلے پر غور کرنے کے ليے اکٹھے ہوئے ہيں۔ ’ميرين فورم‘ نامی جريدے کے ايک مدير اور جديد بحری قذاقی کے موضوع پر کئی کتابوں کے مصنف ميشائيل اشٹيہر نے کہا کہ يہ کانفرنس سياستدانوں کی نہيں بلکہ خالص فوجی افسران کی ہے۔

بحری قذاق فرانسيسی بحريہ کی حراست ميں
بحری قذاق فرانسيسی بحريہ کی حراست ميںتصویر: picture-alliance/dpa

بحر ہند کے ساحلوں پر واقع ممالک پچھلے کئی برسوں سے باقاعدگی سے صلاح مشوروں کے ليے اکٹھے ہو رہے ہيں، جن ميں وہ اپنے اہداف مقرر کرنے پر سمجھوتے کرتے اور اپنے اقدامات کا اعلان يا اُن کی وضاحت کرتے ہيں۔

بحر ہند کے علاقے کے چھوٹے ممالک کی بحريہ ميں صرف تيز رفتار کشتياں ہيں جبکہ بھارت يا ايران کی بحری افواج جديد ترين اسلحے سے ليس ہيں۔ بحری جہاز رانی کے امور کے ماہر اشٹيہر نے کہا کہ جنگی بحری جہازوں جيسے طاقتور جہازوں، مسلح کمانڈو دستوں اور ہيلی کاپٹروں ہی کی مدد سے گہرے سمندروں ميں قذاقوں کے جہازوں اور کشتيوں کا مقابلہ کرکے اُن کے قبضے ميں آئے ہوئے جہازوں اور اُن کے عملے کو چھڑايا جا سکتا ہے۔

ايک جرمن فوجی بحری قذاقی کے خلاف مہم پر
ايک جرمن فوجی بحری قذاقی کے خلاف مہم پرتصویر: AP

اس سال کی کانفرنس کے ميزبان جنوبی افريقہ کی بحری قوت بھی اچھی خاصی ہے۔ وہ صحرائے صحارا کے جنوب ميں افريقہ کی واحد اہم بحری طاقت ہے۔ جرمنی کے شہر ہيمبرگ کے امن پر تحقيق اور سلامتی کی حکمت عملی کے انسٹيٹيوٹ کی بحری قذاقی کے مسائل کی ماہرکيرسٹن پيٹروٹے کا کہنا ہے کہ جنوبی افريقہ کے بحری بيڑے نے ابھی تک قذاقوں کے خلاف جنگ ميں کوئی خاص کارنامہ نہيں دکھايا ہے۔ کيرسٹن وفاقی جرمن حکومت کی مالی سرپرستی سے ايک پروجيکٹ پر کام کر رہی ہيں جس کا مقصد يہ چھان بين کرنا ہے کہ  سمندروں کے راستے عالمی تجارت کو کس طرح زيادہ محفوظ بنايا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مسئلہ يہ ہے کہ جنوبی افريقہ اوپر کی جانب واقع قرن افريقہ اور صومالی بحری قذاقوں کو اپنے دائرہء اثر اور ذمہ داری سے خارج سمجھتا ہے۔ اس کے علاوہ کاغذی اعتبار سے تو اُس کی بحريہ طاقتور ہے ليکن درحقيقت اُس کے پاس پيسے اور عملے کی قلت ہے۔ پيٹروٹے نے کہا کہ بحری قذاقی صرف عالمی جہازرانی ہی کے ليے نہيں بلکہ علاقے کے ممالک کی تجارت، ماہی گيری اور سياحت کے ليے بھی خطرے کا سبب بنی ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ ہر ملک اپنے سمندری علاقے ميں تحفظ اور سلامتی کا ذمہ دار بھی ہے۔

Michael Gessat/sas/Claudia Hennen/at