1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستانی پاور ڈسٹریبیوشن کمپنيوں ميں بھی آئندہ فوجی تعينات

2 دسمبر 2023

پاکستانی فوج، وفاقی تحقيقاتی ادارے اور انٹیلیجنس بیورو کے افسران کو بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں میں بھیجنے کے فیصلے پر کئی حلقے تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/4ZhqP
Pakistanisch-chinesisches Kohlekraftwerk
تصویر: Thar Coal Company/XinHua/dpa/picture alliance

پاکستانی وزارت توانائی نے تصديق کی ہے کہ بجلی کی چوری روکنے اور بلوں کی وصولی کے نظام کو بہتر بنانے کے ليے بجلی سپلائی کرنے والی کمپنیوں میں فوج، وفاقی تحقيقاتی ادارے اور انٹیلیجنس بیورو کے افسران کو تعينات کیا جا رہا ہے۔ مزدور رہنماؤں اور تجزيہ کاروں کا کہنا ہے کہ نہ تو ماضی میں فوجی افسران کو مختلف اداروں میں تعينات کرنے سے کارکردگی بہتر ہوئی تھی اور نہ ہی اب يہ ممکن ہے۔

حکومتی ذرائع نے حال ہی میں ذرائع ابلاغ کو بتایا تھا کہ بجلی سپلائی کرنے والی کمپنیاں اربوں روپے کی بدعنوانی، بجلی کی چوری اور وصولی کے غير موثر نظام جيسے مسائل کی زد ميں ہيں۔ ڈی ڈبلیو اردو نے جب اس حوالے سے سيکرٹری توانائی راشد محمود سے رابطہ کیا، تو انہوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ مذکورہ تعیناتیاں کی جا رہی ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا، ''ہماری وزارت کی جانب سے وزارت دفاع سے یہ درخواست کی گئی ہے کہ وہ اس مقصد کے ليے فوجی افسران نامزد کرے۔ يہ تجویز کابینہ کو بھی بھیج دی گئی ہے۔‘‘

Pakistan | Hohe Stromkosten führen zu Stromdiebstahl
تصویر: Manaf Siddique/DW

راشد محمود کا مزيد کہنا تھا، ''اس کے علاوہ ایف آئی اے اور آئی بی کے افسران کو بھی تعينات کيا جائے گا کیونکہ ہمارا مقصد اربوں روپے ماليت کی بجلی کی چوری کو روکنا ہے۔ اس پر وزارت کافی عرصے سے کام کر رہی ہے اور کئی بے ضابطگياں پکڑی بھی گئی ہیں۔ یہ افسران نگرانی کا کام کریں گے۔‘‘

فی الحال يہ واضح نہيں ہے کہ حاضر سروس افسران کو تعينات کيا جائے گيا يا ريٹائرڈ افسران کو۔

کیا بجلی کے بلوں میں کمی ممکن ہے؟

بجلی کے بل اور پاکستان میں ’انارکی پھیلنے‘ کی ابتدائی علامات

کیا الیکٹرک بسیں پاکستان میں فضائی آلودگی کم کر سکتی ہیں؟

دريں اثناء بجلی سپلائی کرنے والی کمپنیوں میں بھی مختلف ذرائع کا دعوی ہے کہ فیڈرل انویسٹیگیشن ایجنسی، فوج اور انٹیلیجنس بیورو کے افسران کو کمپنیوں میں تعينات کیا جا رہا ہے۔ پشاور الیکٹرک سپلائی کمپنی میں پیغام یونین کے سابق عہديدار قیصر خان نے ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا، ''ہماری کمپنی کو نوٹیفيکیشن موصول ہوا ہے، جس میں ايف آئی اے افسران کے نام اور عہدے درج  ہیں۔ اطلاعات ہيں کہ فوجی افسران کو بھی بھیجا جائے گا۔‘‘

کراچی میں بجلی کے بل اور بجلی کی چوری دونوں ہی ہوشربا

’بجلی مہنگی ہے، چوری رک نہیں سکتی‘

قیصر خان کے مطابق اس فيصلے کی وجہ یہ بتائی جا رہی ہے کہ اس سے وصولی کا نظام بہتر ہو گا اور بجلی کی چوری کم کرنے ميں مدد ملے گی۔ انہوں نے مزيد کہا، ''اس وقت بجلی کے نرخ پچاس روپے فی یونٹ ہيں۔ اگر کوئی غریب آدمی ايک سو یونٹ بجلی استعمال کرتا ہے تو اس کا بل پانچ ہزار سے زیادہ آتا ہے۔ جب تک بجلی کو سستا نہیں کیا جاتا، اس کی چوری کو روکنا بہت مشکل ہے۔‘‘

قیصرخان کا دعوی ہے کہ پشاور اور صوبہ خيبر پختونخوا کے ديگر شہروں میں صارفین کی ايک بڑی تعداد بجلی کی چوری میں ملوث ہے، جس کی وجہ بجلی کی قيمت ہی ہے۔

'افسران کا تیکنیکی مسائل سمجھنا مشکل ہے‘

پاکستان مزدور محاذ کے سیکرٹری جنرل شوکت چوہدری کا کہنا ہے کہ ديگر اداروں کے افسران کے لیے ڈسٹریبیوشن کمپنیوں کے تکنيکی مسائل کو سمجھنا مشکل ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا، ''چونکہ وہ اس نوعيت کے مسائل کو سمجھ نہیں سکتے، ان کے ليے مسائل کا حل تلاش کرنا بھی مشکل ثابت ہو گا۔ ایسے افسران کو بھيج کر حکومت صرف پاور ڈسٹریبیوشن کمپنیوں کے اخراجات میں اضافہ کرے گی کیونکہ ان کو مراعات اور دوسری سہولیات ان کمپنیوں سے ہی ملیں گی۔‘‘

ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں بھی بجلی سپلائی کرنے والی کمپنیوں اور دوسرے اداروں میں فوجی افسران کو بھیجا گیا لیکن اس سے ان کی کارکردگی پر کوئی اثر نہیں پڑا۔

شوکت چوہدری نے يہ خدشہ بھی ظاہر کیا کہ فوج کو بھیجنے کا مقصد یونینوں کے کام کو روکنا ہے۔ ''ماضی میں بھی یونین کے کام کو روک کر نجکاری کی گئی اور مجھے لگتا ہے کہ اب بھی ایسا ہی کیا جائے گا۔‘‘

پاکستان میں شمسی توانائی کی ضرورت اور چیلنجز

کيا اصل مسئلہ نجی کمپنیاں ہیں؟

شوکت چوہدری کا دعویٰ ہے کہ پاکستان میں بجلی کے حوالے سے مالی خسارے کا سبب 'انڈیپینڈنٹ پاور پروڈیوسرز‘ یا بجلی بنانے والی نجی کمپنیاں ہیں۔ انہوں نے کہا، ''ان کمپنیوں سے ہم نے بہت گھاٹے والے معاہدے کیے ہیں اور اب وہ بجلی ايک سو میگا واٹ بناتے ہیں مگر معاوضہ ايک ہزار میگا واٹ کا لیتے ہیں۔‘‘

پاکستان کے معروف اقتصادی ماہر قیصر بنگالی نے شوکت چوہدری کی اس بات سے اتفاق کيا۔ ان کا کہنا ہے کہ جب تک ان کمپنیوں کے معاہدے کی معیاد ختم نہیں ہوتی، اس وقت تک پاور ڈسٹریبیوشن کمپنيوں اور اداروں کے مالی خسارے ميں کمی ممکن نہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا، ''حکومت نے اس کی گارنٹی دی ہوئی ہے جب کہ لاگت پر بھی ان کو منافع دیا جاتا ہے۔ عمران خان کی حکومت نے ان سے بات چیت کرنے کی کوشش کی تھی اور اس سے کم از کم یہ ہوا کہ اب ڈالر کی جگہ ہم انہیں روپے میں ادائیگی کرتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان سے یا تو دوبارہ بات چیت کی جائے یا پھر ان کمپنیوں کے معاہدے کی معیاد ختم ہونے کا انتظار کیا جائے۔‘‘

’فوج کنٹرول چاہتی ہے‘

قیصر بنگالی کے مطابق اگر فوج افسران کی تعيناتی سے مختلف اداروں کی کارکردگی بہتر ہوتی، تو وہ کہیں نہ کہیں نظر آتی۔ ''واپڈا کے چیئرمین بھی ایک لیفٹیننٹ جنرل ہيں، جو کئی برسوں سے اس عہدے پر ہيں۔ اس کے علاوہ اسٹیل ملز اور جامعات میں بھی فوجیوں کو وائس چانسلر اور ديگر عہدے ديے گئے لیکن کیا آپ کو وہاں کوئی بہتری نظر آئی۔‘‘

قیصر بنگالی کے مطابق، ''فوج کے افسران کو ان اداروں میں بھیجنے کا مقصد صرف فوجی کنٹرول کو زیادہ سے زیادہ بڑھانا ہے۔‘‘

اپنی بجلی خود پیدا کرنے والا پاکستانی گاؤں