1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’باون فیصد ہونے کے باوجود خواتین پارلیمان میں اقلیت کیوں؟‘

صائمہ حیدر
7 مارچ 2018

ایک ایسے معاشرے میں جہاں معاشیات اور سماجیات مردوں کے تسلط میں ہوں، خواتین کے لیے اپنی شناخت بنانا بہت کٹھن ہے۔ کوئٹہ میں ہزارہ برادری کی پہلی خاتون وکیل کا موقف ہے کہ اب عورت کو اپنے وجود کی نفی سے انکار کرنا ہو گا۔

https://p.dw.com/p/2tpFJ
Pakistan Jaleela Haider Anwältin
جلیلہ حیدر کہتی ہیں کہ اب وقت آ گیا ہے کہ خواتین کاسمیٹکس انڈسٹری کے چنگل سے باہر نکلیں اور اپنے انٹلکچوئل عہد کی طرف واپس آئیںتصویر: privat

تیس سالہ جلیلہ حیدر کا تعلق پاکستان کے پسماندہ اور محروم  سمجھے جانے والے صوبے بلوچستان کے شہر کوئٹہ سے ہے اور وہ گزشتہ سات برس سے بلوچستان بار سے منسلک ہیں۔ جلیلہ کے بقول کم عمری ہی میں والد کے انتقال کے بعد انہیں اور اُن کے خاندان کو بے تحاشا مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ خاص طور پر ایک ایسے دور میں جب ملک بھر میں بالعموم قبائلیت اور مذہبی جنونیت پروان چڑھ رہی تھی۔

 دوسری جانب ہزارہ برادری کو بھی نشانہ بنایا جا رہا تھا۔ ایسے میں جلیلہ حیدر نے ایک فلاحی اسکول میں رضاکارانہ طور پر اپنی خدمات پیش کیں جہاں سے انہیں کبھی کبھار کچھ معاوضہ مل جاتا تھا۔ اسی معاوضے سے جلیلہ نے وکالت کی اپنی تعلیم جاری رکھی۔

پاکستانی دیہی خواتین، محنت میں برابر لیکن حقوق میں پیچھے

 جلیلہ نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یونیورسٹی میں اُن کے لیے سب سے بڑا مسئلہ اپنے ساتھی طلبا کے ذہنوں میں ہزارہ کمیونٹی کے حوالے سے پہلے سے پائے جانے والے عام خیالات یا اسٹیرو ٹائپ سوچ کو ختم کرنا تھا۔ ایسے منفی تاثرات کو جلیلہ نے آہستہ آہستہ اُن سے مکالمت کر کے ختم کیا۔

جلیلہ کی رائے میں اُن کی بڑی کامیابیوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اب وہی پشتون، بلوچ اور ہزارہ کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے اُن کے کلاس فیلوز اور رفقائے کار انہیں اپنا سفیر سمجھتے ہیں۔ تاہم جلیلہ کہتی ہیں کہ یہ بھی اپنی جگہ ایک حقیقت ہے کہ بطور خاتون انہیں بہت سے سماجی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

Pakistan Jaleela Haider Anwältin
تصویر: privat

ملازمت کی جگہوں پر ہراساں کیے جانے کے موضوع پر بات کرتے ہوئے جلیلہ حیدر کا کہنا تھا، ’’اگرچہ میں خود حقوق نسواں کی علمبردار ہوں لیکن یہ خود ایک اینٹی فیمینسٹ بیان ہے اور مجھے کہنا پڑے گا کہ بعض خواتین جو کسی خاص ملازمت کے معیار پر پوری نہیں اترتیں لیکن اُن کے مینیجر اُن سے خوش رہتے ہیں، بالعموم وہی اچھی دفتری پوزیشن تک پہنچ سکتی ہیں۔ ہمارا معاشرتی ڈھانچہ کچھ اس طرح کا ہے کہ وسائل پر کنٹرول مردوں کا ہے۔ عورت کا حصہ اس میں نہ ہونے کے برابر ہے۔ اہم عہدوں پر بہت کم خواتین فائز ہیں۔‘‘

پاکستان کی بااثر خواتین

جلیلہ کے لیے اپنی تعلیم کو جاری رکھنے کے لیے کسی جز وقتی ملازمت کا حصول ضروری تھا۔ لیکن اُن کے بقول وہ جہاں بھی انٹرویو کے لیے جاتیں انہیں ضرورت مند سمجھ کر اُن کا استحصال کرنے کی کوشش کی جاتی۔

جلیلہ سمجھتی ہیں کہ اب پاکستان میں خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کیا جانا اور جسمانی تشدد کا مسئلہ بھی سماجی رتبے پر منحصر ہو گیا ہے۔ امیر طبقے یا اپر کلاس کے کچھ اور مسائل ہوتے ہوں گے، وہاں عورت کی آزادی کا مطلب مختلف ہے۔

''  قبائلیت اور مذہبی جنونیت  کے خلاف جدوجہد کرنے والے طبقوں کا سب سے بڑا مسئلہ معاشیات ہے۔ ایسے میں اقتصادیات پر مردوں کے کنٹرول والے سماج میں ملازمتوں کے حصول میں بھی عورت کا استحصال کیا جاتا ہے جس کا میں بھی شکار رہی ہوں۔‘‘

Pakistan Jaleela Haider Anwältin
تصویر: privat

اس خاتون وکیل کا موقف ہے کہ عورتوں کو اپنے اصولوں پر سمجھوتہ نہیں کرنا چاہیے۔ عورت کوئی  شے یا پروڈکٹ نہیں ہے بلکہ وہ بھی  مردوں کی طرح کی ہی انسان ہے۔ جلیلہ کے مطابق،’’ عورت اُس طرح کیوں بنتی چلی جاتی ہے جس طرح مرد اسے دیکھنا چاہتا ہے۔ مرد نے خوبصورتی کی جو تعریف بتائی ہے اُس پر پورا اترنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرتی ہے، مرد کی نظروں سے خود کو دیکھتی ہے اور یوں اپنے وجود کو مسترد کرتی ہے۔ یہ رویہ غلط ہے۔‘‘

جلیلہ بلوچستان کی عوامی مرکز پارٹی کی رکن بھی ہیں۔ اس کے تحت ’وومن ڈیموکریٹک فرنٹ‘ کا قیام بھی عمل میں لایا گیا ہے، جو  جلیلہ کے بقول پاکستان میں حقوق نسواں کی پہلی تحریک بھی ہے۔

پاکستانی خواتین: تشدد سے بچنے کے لیے طلاق ’ایک گالی‘ نہیں رہی

جلیلہ کا کہنا تھا کہ پاکستان میں فوجی آمر ضیاء الحق کے دور میں زبردستی کے جو شریعہ اور عورت مخالف قوانین بنائے گئے تھے اُن کے خلاف آواز اٹھانے کے لیے ایک وومن ایکشن فورم بھی بنایا گیا تھا اور تحریک چلائی گئی تھی۔ اس تحریک کو چلانے والی عاصمہ جہانگیر، نگہت سعید خان اور نازش عطاء اللہ جیسی خواتین تھیں لیکن آج ہماری بچیاں اس بارے میں کچھ نہیں جانتیں۔

جلیلہ حیدر نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے مزید کہا،’’ میرا سوال ہے کہ جب ہم ملکی آبادی کا باون فیصد ہیں تو پھر پاکستان کی پارلیمنٹ میں ہمارے لیے مخصوص نشستیں کیوں ہیں؟ یہ مخصوص نشستیں مردوں کے لیے کیوں نہیں جو ہم سے اقلیت میں ہیں؟‘‘

جلیلہ کا کہنا تھا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ خواتین کاسمیٹکس انڈسٹری کے چنگل سے باہر نکلیں اور اپنے انٹلکچوئل عہد کی طرف واپس آئیں کیونکہ جب تک عورت اپنے لیے خود آواز نہیں اٹھائے گی کوئی دوسرا اُس سے ہم آواز نہیں ہو گا۔