1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بان کی مون کا روانڈا کی نسل کشی اور شامی خانہ جنگی کا موازنہ

عاطف بلوچ28 فروری 2014

روانڈا میں 1994ء کی خانہ جنگی کے بیس برس مکمل ہونے کے سلسلے میں منائی جانے والی ایک تقریب میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے روانڈا کی خانہ جنگی کا شامی بحران سے تقابلی جائزہ کیا ہے۔

https://p.dw.com/p/1BHEY
تصویر: picture alliance/Photoshot

اقوام متحدہ کے سربراہ بان کی مون نے روانڈا میں ہونے والی نسل کشی اور شامی خانہ جنگی کا موازنہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ دونوں تنازعات ایسے ہیں، جن کا حل تلاش نہ کر سکنا عالمی برداری کی ایک بہت بڑی ناکامی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ شامی خون خرابے نے روانڈا میں سو دن تک جاری رہنے والے پر تشدد واقعات کی یاد تازہ کر دی ہے۔

اس عالمی ادارے کے سربراہ کا مزید کہنا تھا کہ ماضی میں رونما ہونے والے ایسے پُر تشدد واقعات کے تناظر میں گو کہ اقوام متحدہ نے اسباق سیکھے ہیں کہ ایسے انسانی المیوں کو وقوع پذير ہونے سے کس طرح روکا جا سکتا ہے لیکن پھر بھی ایسے واقعات رونما ہو جاتے ہیں۔ انہوں نے اس ناکامی کے لیے عالمی برداری کی نامناسب کوششوں کو مورد الزام ٹھہرایا۔ بان کی مون کا کہنا تھا، ’’یہ ہماری اجتماعی ناکامی ہے کہ ہم گزشتہ تین برس سے شامی بحران کا حل تلاش نہیں کر سکے ہیں۔ یہ عالمی برداری کی ایک شرمناک ناکامی ہے۔‘‘

DW 60 Jahre Ruanda Völkermord Gedenkstätte Nyamata
روانڈا میں سو دن تک جاری رہنے والی خانہ جنگی کے دوران آٹھ لاکھ افراد کو موت کی گھاٹ اتار دیا گیا تھاتصویر: picture alliance/AP Photo

راونڈا میں 1994ء کی بدترین خانہ جنگی کے بیس برس مکمل ہونے کے موقع پر مختلف یادگاری تقریبات کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔ نیو یارک میں اسی سلسلے میں منعقد کی گئی Kwibuka 20 نامی ایک افتتاحی تقریب میں خطاب کرتے ہوئے بان کی مون نے کہا، ’’ہم جانتے ہیں کہ نسل کشی کوئی لمحاتی واقعہ نہیں ہوتا بلکہ یہ عمل وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ نشوونما پاتا ہے۔‘‘ انہوں نے روانڈا کی نسل کشی کے لیے بھی عالمی برداری کو قصووار قرار دیا اور کہا کہ اُس وقت مناسب اقدامات نہیں کیے گئے تھے، جس کی وجہ سے حالات قابو سے باہر ہو گئے تھے۔

روانڈا میں سو دن تک جاری رہنے والی خانہ جنگی کے دوران آٹھ لاکھ افراد کو موت کی گھاٹ اتار دیا گیا تھا۔ جدید تاریخ میں اسے بدترین واقعات میں تصور کیا جاتا ہے۔ اس وقت کٹر نظریات کے حامل ہوٹو نسل کے افراد نے ٹوٹسی اقلیت اور اعتدال پسند ہوٹو نسل کے افراد کو چن چن کر ہلاک کیا تھا۔

جمعرات کے دن منعقد کی گئی اس یادگاری تقریب میں بان کی مون نے وسطی افریقی جمہوریہ میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر بھی شدید تحفظات کا اظہار کیا۔ اس موقع پر بان کی مون نے یورپ میں روما کمیونٹی، مسلمانوں اور امیگرنٹس کے ساتھ بڑھتی ہوئی نفرت کا تذکرہ بھی کیا۔