1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بالی ووڈ اسٹائل ڈانس بارز میں کام کا شوق، کہیں اور لے گیا

8 اگست 2019

شیلا کو جب کال موصول ہوئی تو اس نے قطعاً نہیں سوچا اور فوری طور پر ہاں کر دی۔ اسے بیوٹی پارلر سے ملنے والی تنخواہ سے تین گنا زیادہ پیسوں کی پیشکش ہوئی تھی کہ وہ کینیا کے ایک نائٹ کلب میں ثقافتی رقاصہ کے طور پر کام کرے۔

https://p.dw.com/p/3Na1V
Syrien Nachtclub in Aleppo
تصویر: Joseph Eid/AFP/Getty Images

نیپال کے چھوٹے سے گاؤں سے تعلق رکھنے والی تئیس سالہ بیوٹیشن شیلا نے کینیا کا نام بھی نہ سن رکھا تھا۔ ایک مقامی بیوٹی پارلر میں کام کرنے والی اس لڑکی کو نہ تو ڈانس کرنے کا کوئی تجربہ تھا اور نہ ہی اس نے کبھی اس ڈانس کلب کے مالک سے ملاقات کی تھی۔ اسے باقاعدہ طور پر ملازمت کا کوئی کانٹریکٹ بھی نہیں ملا تھا۔

غربت کی زندگی بسر کرنے والی اس لڑکی کو جب چھ سو ڈالر ماہانہ کی پیشکش ہوئی تو وہ تمام تر خطرات مول لینے کو تیار ہو گئی۔ اس نے کینیا کا سفر اختیار کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ اس کا خیال تھا کہ وہ کینیا جا کر بالی ووڈ اسٹائل کلبوں میں ڈانس کرتے ہوئے نہ صرف انجوائے کر سکے گی بلکہ اپنے غریب گھروالوں کی کفالت بھی کر سکے گی۔

جب چھاپہ پڑا

اپریل میں ہی کینیا کی پولیس نے بندرگاہی شہر ممباسا کے ایک نائٹ کلب پر چھاپہ مارا اور وہاں غیر قانونی طور پر کام کرنے والی گیارہ نیپالی لڑکیوں کو بازیاب کرایا۔ شیلا بھی انہی میں سے ایک تھی۔ تاہم اب اس کے خیالات واضح طور پر کچھ مختلف ہو چکے ہیں۔ اس نے بتایا، ''یہ وہ جگہ نہیں تھی، جس کے بارے میں مجھے بتایا گیا تھا‘‘۔

تھامسن روئٹرز فاؤنڈیشن سے گفتگو میں شیلا نے کہا کہ اسے تو عیش و عشرت کے سہانے خواب دکھائے گئے تھے۔ لیکن اس مشرقی افریقی ملک میں آکر تو اسے رات نو بجے تا صبح چار بجے تک ناچنا پڑتا تھا اور وہاں موجود جو لوگ اسے کچھ  پیسے بطور ٹپ دیتے تھے، وہی اس کی کمائی ہوتی تھی۔

بالغوں کے کلبوں میں رقص

انسانوں کی اسمگلنگ کے خلاف فعال کارکنوں اور پولیس کے مطابق پاکستان سمیت جنوبی ایشیائی ممالک سے تعلق رکھنے والی لڑکیاں کینیا میں واقع بالغوں کے انٹرٹنیمنٹ کلبوں میں کام کرنے کے لیے اس مشرقی افریقی ریاست کا رخ کر رہی ہیں۔ حالیہ عرصے میں ان خواتین کی تعداد میں اضافہ نوٹ کیا گیا ہے تاہم اس بارے میں مصدقہ اور حتمی اعدادوشمار موجود نہیں ہیں۔

کینیا کی پولیس کے مطابق ایسے نائٹ کلبوں پر متعدد ایسے چھاپے مارے گئے، جہاں جنوبی ایشیائی ممالک سے تعلق رکھنے والی لڑکیاں غیرقانونی طور پر کام رہی تھیں۔ کینیا کی حکومت ان لڑکیوں کو ان کے آبائی وطن روانہ کر رہی ہے۔ بتایا گیا ہے کہ اس کارروبار میں انسانوں کے اسمگلروں کے منظم گروہ شریک ہیں۔

پولیس کے مطابق ممباسا کے نائٹ کلب کے مالک آصف امیرعلی علی بھائی کے خلاف قانونی کارروائی شروع کی جا چکی ہے۔ تاہم ملزم نے انسانوں کی اسمگلنگ میں ملوث ہونے سے انکار کیا ہے۔ کینیڈا اور برطانیہ کی دوہری شہریت رکھنے والے آصف کا موقف ہے کہ یہ لڑکیاں اپنی رضا مندی سے ان کے کلب میں کام کرتی تھیں اور ان کا جنسی استحصال نہیں کیا جاتا تھا۔ پولیس کے مطابق آصف ضمانت پر رہا کیا جا چکا ہے لیکن ان کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی جا رہی ہے۔

ع ب/ ع ح / تھامسن روئٹرز فاؤنڈیشن

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں