بابری مسجد انہدام کیس: مجرم کون؟
بھارت کے اجودھیا میں 6 دسمبر1992 کوتقریباً 400 سالہ قدیم تاریخی بابری مسجد کو منہدم کردینے کے کیس میں لکھنؤ میں سی بی آئی کی خصوصی عدالت 30 ستمبر کو فیصلہ سنانے والی ہے۔
انتظار کی گھڑی ختم
بابری مسجد کے انہدام کے تقریباً 28 برس بعد عدالت یہ فیصلہ سنانے جارہی ہے کہ اس مسجد کو منہدم کرنے کی سازش کرنے والوں میں کون کون لوگ شامل تھے۔
کون مجرم ہے؟
سابق نائب وزیر اعظم لال کرشن اڈوانی، بی جے پی کے رہنما مرلی منوہر جوشی، اومابھارتی، ونئے کٹیار،کلیان سنگھ، سادھوی رتھمبرا 32 ملزمین میں شامل ہیں۔ دیگر ملزمین میں اشوک سنگھل، گری راج کشور، وشنو ہری ڈالمیا وفات پاچکے ہیں۔
کیا ہوگا انجام
بابری مسجد انہدام میں دو کیس دائر کیے گئے۔ ایک لاکھوں نامعلوم ’کارسیوکوں‘ کے خلاف اور دوسرا انہدام کی سازش تیار کرنے والے آٹھ افراد کے خلاف۔ شدت پسند ہندووں کی طر ف سے صحافیوں پر حملوں کے 47 مزید کیس بھی دائر کیے گئے تھے۔
سینکڑوں ہلاکتیں
بابری مسجد کے انہدام کے بعد پورے بھارت میں فسادت پھوٹ پڑے تھے۔جن میں سرکاری اعدادو شمار کے مطابق 1800افراد مارے گئے۔ تاہم ہلاک ہونے والوں کی اصل تعداد اس سے بہت زیادہ بتائی جاتی ہے۔
دیرینہ مطالبہ
مسلمان بابری مسجد کے قصورواروں کے خلاف کارروائی کا ایک عرصے سے مطالبہ کررہے ہیں۔ وہ ہر برس چھ دسمبر کو ’یوم سیاہ‘ مناتے ہیں۔
نئی شناخت
قوم پرست ہندو تنظیمیں 6 دسمبر کو ’یوم شجاعت‘ کے طور پر مناتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس دن بھارت میں ہندووں کو ایک نئی شناخت ملی۔
رام مندر
منہدم بابری مسجد کی جگہ اب ایک عظیم الشان رام مندر کی تعمیر کا کام شروع ہوگیا ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے 5 اگست 2020 کو اس کا سنگ بنیاد رکھا۔ ایک برس قبل اسی دن جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کردی گئی تھی۔
کچھ بچا تو نہیں نا؟
لال کرشن اڈوانی نے اپنی خودنوشت ’میراوطن میری زندگی‘ میں لکھا ہے کہ جب بابری مسجد منہدم ہوجانے کے بعد وہ اجودھیا سے لکھنؤ جارہے تھے تو ایک اعلی سرکاری افسر نے ا ن سے پوچھا ”اڈوانی جی، کچھ بچا تو نہیں نا؟ بالکل صاف کردیا نا؟“
سماجی تانا بانا تباہ
اڈوانی نے رتھ یاترا کے دوران اپنی اشتعال انگیز تقریروں سے بھارت کے سماجی تانے بانے کوتباہ کردیا۔ ہندووں اور مسلمانوں میں نفرت کی جو خلیج پیدا ہوئی وہ مسلسل بڑھتی جارہی ہے۔
مجھ پرجھوٹا الزام
سابق وفاقی وزیر مرلی منوہر جوشی کا کہنا ہے کہ انہیں بابری مسجد انہدام کیس میں جھوٹا پھنسایا جارہا ہے۔ وہ انہدام کے سلسلے میں سازش نہیں کی تھی۔ حالانکہ انہدام کے وقت کی تصویروں میں وہ مسجد سے تھوڑ ی دور پر اوما بھارتی کے ساتھ انتہائی مسرت کا اظہار کرتے نظر آرہے تھے۔
معافی نہیں مانگوں گی
سابق وزیر سادھوی اوما بھارتی نے بھی ہندووں کے جذبات بھڑکانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑا تھا۔ اوما بھارتی کا کہنا ہے کہ اجودھیا تحریک میں شامل ہونے پر انہیں فخر ہے اور اگر انہیں پھانسی کی سزا بھی دی گئی تو وہ معافی نہیں مانگیں گی۔
حلف نامے کی خلاف ورزی
بابری مسجد انہدام واقعہ کے دوران اترپردیش کے وزیر اعلی کلیان سنگھ نے سپریم کورٹ میں حلف نامہ داخل کرکے کہا تھا کہ وہ مسجد کو کوئی نقصان پہنچنے نہیں دیں گے۔
وعدہ تیرا وعدہ
کانگریسی وزیر اعظم پی وی نرسمہا راو نے 7 دسمبر1992 کو بابری مسجد کواسی جگہ دوبارہ بنانے کا وعدہ کیا۔ لیکن یہ صرف وعدہ ہی رہا۔ اڈوانی کے مطابق’نرسمہاراو اور ان کی کانگریس پارٹی نے ہندووں اورمسلمانوں دونوں کا اعتماد کھودیا۔‘
کانگریس بھی بے داغ نہیں
بابری مسجد انہدام کے لیے بی جے پی کے ساتھ ہی کانگریس پارٹی کو بھی مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے۔ سابق وزیر اعظم راجیو گاندھی نے بابری مسجد کا تالہ کھلوا کر وہاں پوجا کی اجازت دے کر ایک نئے تنازعہ کی بنیاد رکھ دی۔
ایک ووٹ یعنی ایک اینٹ
بابری مسجد۔رام جنم بھومی بھارت میں اب بھی ایک اہم سیاسی موضوع ہے۔ بہار میں اگلے ماہ اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں۔ بی جے پی کے ایک رہنما کا کہنا ہے کہ پارٹی کے لیے ہر ایک ووٹ رام مندر کی تعمیر کے لیے ایک اینٹ کی طرح ہوگا۔
سزا یا باعزت بری
اب پورے بھارت کی نگاہیں 30 ستمبر کو عدالت کے فیصلے کی طرف لگی ہوئی ہیں۔ آیا بابری مسجد کے انہدام کے مجرموں کو سزا ملے گی یا انہیں باعزت بری کردیا جائے گا۔
سکیورٹی انتظامات
حکومت نے کسی بھی ممکنہ ناخوشگوار صورت حال سے نمٹنے کے لیے تمام ریاستوں کو سکیورٹی انتظامات بڑھادینے کی ہدایت دی ہے۔ تحریر: جاوید اختر