1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بائیوپائریسی کیا ہے؟

16 دسمبر 2022

بائیوپائریسی کا موضوع مونٹریال میں جاری تحفظ فطرت کانفرنس میں کلیدی اہمیت اختیار کر چکا ہے، جہاں ترقی پذیر ممالک قدیمی دانش کی بنیاد پر ایجادات میں اپنا مالی حصہ طلب کر رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/4L4Ag
Kanada Montreal COP15
تصویر: Ryan Remiorz/AP/picture alliance

کینیڈا کے شہر مونٹریال میں جاری تحفظ فطرت کی بین الاقوامی کانفرنس میں ترقی پذیر ممالک کا موقف ہے کہ ایسی ہر سائنسی ایجاد یا پیش رفت، جس کی بنیاد قدیمی دانش یا فطری وسائل پر ہو، ان سے حاصل کردہ منافع تقسیم کیا جانا چاہیے۔

تحفظ ماحول کے لیے جانیں قربان کرنے والے سینکڑوں محافظین

عالمی معاہدہ برائے ماحولیاتی نقصان کیسے کام کرتا ہے؟

ادویات پر تحقیق، جینیاتی تبدیلی پر مبنی فصلوں اور دیگر مصنوعات میں درحقیقت نیا کچھ بھی نہیں کیوں کہ یہ تمام کہیں نہ کہیں سے مستعار لی جاتی ہیں۔ روایتی قدیمی دانش یا حیاتیاتی تنوع، جسے وہاں سے حاصل کیا گیا اور کوئی باقاعدہ کریڈٹ یا معاوضہ دیے بغیر استعمال کیا گیا، اسے بائیوپائریسی قرار دیا جاتا ہے۔

ایسے معاملات تمام انسانی تاریخ میں دکھائی دیتے ہیں۔ تاہم ہسپتانوی، برطانوی اور دیگر عالمی سلطنتوں نے تواتر کے ساتھ مختلف مقبوضہ علاقوں کے قدرتی وسائل سے زبردست منافع کمایا، مثلا کافی، سوت، چائے، مصالحے اور ربر وغیرہ۔

گو کہ ان میں سے زیادہ تر مقبوضہ علاقے بعد میں آزاد ہو گئے مگر بائیوپائریسی کا سلسلہ مسلسل جاری رہا۔ امیر ممالک میں ریسرچرز اور اہم بین الاقوامی کمپنیوں نے غریب ممالک کے قدرتی وسائل پر قبضہ جاری رکھا اور ان کے حقوقِ دانش اپنے نام رکھ کے اس سے فائدہ کماتے رہے۔ ان میں بائیوٹیک، زراعت اور ادویات ساز ادارے سبھی شامل تھے۔ ان میں سے ایک ایک صنعت اربوں کھربوں ڈالرز کی ہے۔

ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کا معاہدہ گو کہ حقوقِ دانش کے احاطہ کو بڑھا کر کچھ پودوں اور جانوروں تک پر لاگو کرتا ہے، تاہم یہ ضمانتیں ہر وقت کارگر نہیں ہوتیں۔

مثال کے طور پر امریکی بین الاقوامی کمپنی ڈبلیو آر گریس نے نیم کے پودے سے تیار کردہ نامیاتی فنگیسائڈل پروڈکٹ کو اپنے نام سے پیٹنٹ کروا رکھا تھا۔ اس بابت مقدمہ قائم کیا گیا، جس میں بھارتی فارمنگ کی روایتی دانش میں نیم کے پودے کے اہم کردار کا ذکر تھا۔ یہ مقدمہ بلآخر بھارتی حکومت نے جیت لیا تھا اور یوں یہ ساٹھ ملین ڈالر سالانہ کا پیٹنٹ کا مقدمہ کئی دہائیوں کی لڑائی کے بعد اپنے انجام کو پہنچا۔

نوگویا پروٹوکول نامی معاہدے کے ذریعے ایسی تمام مصنوعات جو حیاتیاتی تنوع یا جینییٹک وسائل کی بنیاد پر ہوں، ان کی رسائی کی نگرانی کی جانا ہے، جب کہ ان سے حاصل ہونے والے نفع کو 'مناسب اور منصفانہ‘ انداز سے بانٹا جانا بھی تفویض ہے۔ یہ معاہدہ اکتوبر 2014 سے نافذ العمل ہے جب کہ اب تک دنیا کے 138 ممالک اس کی توثیق کر چکے ہیں، جس میں کینیڈا، امریکا اور روس شامل ہیں۔

لاہور میں اسموگ میں خطرناک حد تک اضافہ

مونٹریال میں جاری کوپ 15 بائیوڈائیورسٹی یا حیاتی تنوع کانفرنس میں یہ موضوع اہم ترین ہے، جس جینیٹک ڈیٹا کو ڈیجیٹل فورم یا ڈیجیٹل سیکوئنس یعنی DSI سےمحصولہ معلومات اور حاصل شدہ منافع کو بھی اس فریم ورک کا حصہ بنانے کے لیے کہا جا رہا ہے۔

متعدد افریقی ممالک کا موقف ہے کہ وہ نیا بائیوڈائیورسٹی فریم ورک صرف اسی صورت میں تسلیم کریں گے، اگر ڈی ایس آئیی جیسی جدید سائنسی پیش رفتوں سے حاصل ہونے والے منافع کو متعلقہ ممالک کے ساتھ بانٹے جانے کا نکتہ اس فریم ورک میں شامل  کیا جائے۔

ع ت، ا ا (مارٹن کوبلر)