1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان میں پچاس ملین سمز بند ہو جانے کا امکان

عنبرین فاطمہ، کراچی30 جنوری 2015

پاکستان میں بائیو میٹرک نظام کی مدد سے موبائل فون کی سمز کی تصدیق کا عمل جاری ہے۔ اس عمل کے باعث پچاس فیصد سے زائد سمز بند ہو جانے کا اندیشہ ہے۔ یہ تعداد پچاس سے پچپن ملین بنتی ہے۔

https://p.dw.com/p/1ETPF
تصویر: PeJo/Fotolia

موبائل فون صعنت سے وابستہ ماہرین کے مطابق فی الحال اس حوالے سے حتمی اعداد وشمار دینا تو قبل از وقت ہو گا مگر امید یہی ہے کہ 14اپریل کے بعد جب تصدیق کے عمل کے لیے دیا گیا وقت ختم ہو گا تو موبائل فون کمپنیوں کی پچاس فیصد سے زائد سبسکرپشنز ختم ہو جائیں گی۔

ٹیکنالوجی اور ٹیلی کام سیکٹر کے حوالے سے ویب سائٹ پرو پاکستانی کے بانی عامر عطاء کے مطابق موبائل فون سِمز کی تصدیق کے لیے دی گئی مقررہ تاریخ کے بعد دو طرح کی سمیں بند ہو جائیں گی، ایک تو وہ جنہیں صارفین نے کسی وجہ سے خرید تو لیا تھا مگر اب انہیں استعمال نہیں کر رہے اور دوسری وہ جن کے مالکان مقررہ وقت میں اپنی سموں کی دوبارہ تصدیق کروانے کے لیے ریٹیلر یا سروس سینٹر تک نہیں پہنچ سکیں گے۔

ایسے صارفین جو کسی باعث اپنی سمز کی بائیو میٹرک تصدیق نہیں کروا سکیں گے انہیں چھ ماہ یا 180 دنوں کا اضافی وقت دیا جائے گا۔ اس دوران انہیں یہ موقع حاصل ہو گا کہ وہ اپنے بلاک کر دیے جانے والے نمبروں کو بائیو میٹرک طریقے سے دوبارہ تصدیق کروا کر کھلوا سکتے ہیں۔

پاکستان میں غیر تصدیق شدہ سمز مجرمانہ سرگرمیوں کے لیے استعمال ہوتی رہی ہیں
پاکستان میں غیر تصدیق شدہ سمز مجرمانہ سرگرمیوں کے لیے استعمال ہوتی رہی ہیںتصویر: Reuters

ٹیلی کام سیکٹر کے سینیئر ماہر شعیب شیخ کے مطابق تین ماہ میں تمام ترصارفین کی دوبارہ تصدیق کے اس کام کے نتیجے میں اگر نصف کے قریب سمز بند ہوجائیں گی تو اس میں حیرانی کی کوئی بات نہیں۔ تاہم اس سے یہ ضرور ہو گا کہ ٹیلی کمیونیکیشن کمپنیوں نے صارفین کی جس تعداد تک پہنچنے کے لیے کئی برسوں تک کوشش کی وہ تعداد قریب نصف رہ جائے گی۔

تاہم پی ٹی اے کے حکام کے مطابق ٹیلی کام کمپنیوں کے پاس اس کے سوا اور کوئی چارہ نہیں کہ وہ تین ماہ میں اس کام کو سر انجام دیں۔ نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر پی ٹی اے حکام کی جانب بتایا گیا کہ تصدیق کے عمل کے بعد سمز کی بندش کو صارفین کی کمی کے طور پر نہیں لینا چاہیے کیونکہ جو صارفین سمز کا استعمال کرتے ہیں وہ کسی بھی وجہ سے سِم کی بندش کے بعد اس کا استعمال ترک نہیں کریں گے بلکہ اسے کسی نہ کسی طرح دوبارہ تصدیق کروا کے استعمال میں لائیں گے۔

ٹیلی کام سیکٹر پر نظر رکھنے والے عامر عطاء کہتے ہیں کہ سمز کی بندش کا مطلب صارفین کی تعداد میں کمی نہیں۔ ان کے خیال میں صرف تصدیق شدہ ایسی مجاز سمز کا ریکارڈ میں ہونا ٹیلی کام صعنت کے لیے زیادہ بہتر ہے، جو نہ صرف استعمال میں ہوں بلکہ ان سے ریوینیو بھی حاصل ہوتا ہو۔ عطاء کے مطابق اس کا مطلب یہ ہے کہ ٹیلی کام کمپنیوں کے مجموعی طور پر ریوینیو پر کوئی قابل ذکر اثر نہیں ہو گا، سوائے ان اخراجات کے جو سم کی دوبارہ تصدیق پر آرہے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں 14 اپریل کے بعد تقریباً نصف سبسکرپشنز سے بھی اتنا ہی ریوینیو حاصل ہو گا جتنا ابھی حاصل ہو رہا ہے۔

واضح رہے کہ وزارت داخلہ نے گزشتہ برس 16 دسمبر کو پشاور کے ایک اسکول پر حملے میں دہشت گردوں کی جانب سے رابطہ کے لیے ’بائیو میٹرک تصدیق شدہ‘ سمز استعمال ہونے کے بعد یہ 28 روزہ ڈیڈ لائن مقرر کی تھی اور موبائل آپریٹرز کے نمائندوں نے اس کم وقت میں رجسٹریشن کے اس مسئلے کا حل نکالنے کے لیے وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان، وزیر مملکت برائے آئی ٹی اور ٹیلی کام انوشہ رحمان اور پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کے سربراہ ڈاکٹر اسماعیل شاہ سے ایک ملاقات بھی کی تھی جس کے بعد فیصلہ ہوا تھا کہ دوبارہ تصدیق کے عمل کے لیے تین ماہ کی مہلت دی جائے گی۔

پی ٹی اے نے غیر قانونی سمز کے مجرمانہ استعمال کے بعد ماضی میں فروخت شدہ سمز کی تصدیق کے علاوہ نئے کنکشنز کی فروخت کے لیے ایک سال پہلے بائیو میٹرک نظام متعارف کرایا تھا۔