1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’ایک ہی مہینے میں 122 عالمی رہنماؤں کی جاسوسی‘

ندیم گِل30 مارچ 2014

امریکی نیشنل سکیورٹی ایجنسی نے ایک ہی مہینے میں جرمن چانسلر انگیلا میرکل سمیت ایک سو سے زائد عالمی رہنماؤں کی جاسوسی کی۔ یہ بات ایک جرمن میگزین کی رپورٹ میں سامنے آئی ہے۔

https://p.dw.com/p/1BYWf
تصویر: picture alliance/ZUMAPRESS.com

جرمن نیوز میگزین ڈیراشپیگل نے ہفتے کو ایک رپورٹ شائع کی ہے جس کے مطابق مئی 2009ء میں نیشنل سکیورٹی ایجنسی (این ایس اے) نے 122 عالمی رہنماؤں کی جاسوسی کی۔ اشپیگل نے یہ رپورٹ این ایس اے کےسابق ملازم ایڈورڈ سنوڈن کی فراہم کردہ معلومات کے حوالے سے دی ہے۔

خبر رساں ادارے ڈی پی اے کے مطابق این ایس اے نے اس ایک مہینے میں جاسوسی کا نشانہ بننے والے رہنماؤں کے ناموں کی ایک فہرست مرتب کی تھی جس میں جرمن چانسلر انگیلا میرکل سے لے کر یوکرائن کی سابق وزیر اعظم یولیا تیموشینکو تک متعدد رہنما شامل تھے۔

اشپیگل نے سنوڈن کی فراہم کردہ ایک دستاویز کے حوالے سے بتایا ہے کہ این ایس اے میں میرکل کے حوالے سے تین سو سے زائد فائلیں رکھی گئی تھیں۔

اشپیگل کے مطابق اسے ملنے والی دستاویز میں بارہ رہنماؤں کے نام شامل ہیں جن میں سے ایک ملائیشیا کے سابق وزیر اعظم عبداللہ بداوی بھی ہیں۔

Hinweise auf US-Überwachung von Merkels Handy
جرمن چانسلر انگیلا میرکلتصویر: picture-alliance/dpa

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اشپیگل کا کہنا ہے کہ این ایس اے کی یہ فائلز جرمن عدلیہ کے لیے ایک اہم ثبوت ہو سکتی ہیں جو آنے والے دِنوں میں اس بات کا فیصلہ کرے گی کہ آیا جاسوسی کے مشتبہ اسکینڈل کی تحقیق کی جائے یا نہیں۔

گزشتہ برس سامنے آنے والی ایک رپورٹ کے مطابق این ایس اے مبینہ طور پر میرکل کے موبائل فون کی نگرانی بھی کرتی رہی ہے۔ این ایس اے کی جانب سے جاسوسی کے انکشاف پر امریکا اور برلن کے تعلقات میں کشیدگی پیدا ہوئی تھی۔

جرمنی کی گرین پارٹی کے ہانس کرسٹیان شٹرؤبیلے نے روس میں سنوڈن سے ملاقات بھی کی تھی۔ وطن واپسی پر وہ سنوڈن کا ایک خط بھی ساتھ لائے تھے۔

ایڈورڈ سنوڈن جاسوسی کے پروگرام پرزم کا انکشاف کرنے پر امریکا کو مطلوب ہیں۔ اس پروگرام کے بارے میں معلومات ذرائع ابلاغ کو دینے کے بعد وہ ہانگ کانگ فرار ہو گئے تھے۔ وہاں سے وہ گزشتہ برس جون میں ماسکو پہنچے تاہم امریکا کی جانب سے شہریت کی منسوخی کی وجہ سے مزید سفر نہ کر سکے اور ماسکو ایئرپورٹ کے ٹرانزٹ زون میں ہی ٹھہرے رہے۔ اگست میں روس نے انہیں ایک سال کے لیے سیاسی پناہ دے دی تھی۔