ایک سال میں دس ہزار سے زائد افغان شہری ہلاک یا زخمی
15 فروری 2018امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ برس اگست میں افغانستان سے متعلق اپنی نئی پالیسی کے تحت اس ملک میں فضائی حملوں میں اضافے کا اعلان کیا تھا۔ امریکی فضائی حملوں میں اضافے کے جواب میں شدت پسند جنگجوؤں نے افغان دارالحکومت کابل پر اپنے حملوں میں اضافہ کر دیا تھا۔ گزشتہ چند ہفتوں کے دوران کابل میں ڈیڑھ سو سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے۔
امریکا پاکستانی فوج، انٹیلیجنس حکام پر پابندیاں لگائے، کرزئی
کیا افغانستان کو سی پیک میں شامل کیا جا سکتا ہے؟
اقوام متحدہ کے جمعرات پندرہ فروری کو جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ برس 3438 عام افغان شہری ہلاک جب کہ سات ہزار سے زیادہ زخمی ہوئے۔ ان میں سے دو ہزار تین سویلین باشندے خود کش حملوں کے باعث ہلاک ہوئے تھے۔ اقوام متحدہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ سن 2017 میں افغانستان میں سویلین ہلاکتیں اس سے پچھلے برس یعنی سن 2016 کی نسبت نو فیصد کم رہیں۔
عالمی ادارے کے مطابق سویلین ہلاکتوں کی تعداد کم ہونے کے باوجود ایک بڑا پریشان کن پہلو یہ ہے کہ شدت پسندوں اور دہشت گردوں کے حملوں کے سبب عام شہریوں کی ہلاکتوں میں کافی اضافہ ہوا ہے۔ اقوام متحدہ کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا، ’’حکومت مخالف عناصر کے حملوں میں جان بوجھ کر عام شہریوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ گزشتہ برس ایسے خودکش اور شدید حملوں کی شرح مجموعی سویلین ہلاکتوں کا ستائیس فیصد رہی۔‘‘
عالمی ادارے کے مشن برائے افغانستان نے وہاں شہری ہلاکتوں کا ریکارڈ جمع کرنے کا سلسلہ سن 2009 میں شروع کیا تھا۔
گزشتہ برس ہونے والی ہلاکتوں میں سے دو تہائی عام افغان شہری حکومت مخالف دہشت گردوں کے حملوں میں ہلاک ہوئے۔ ان میں سے بیالیس فیصد حملوں کی ذمہ داری طالبان، دس فیصد کی داعش اور تیرہ فیصد حملوں کی ذمہ داری دیگر شدت پسند گروپوں نے قبول کی تھی۔
امریکی اتحاد کے فضائی حملوں کے سبب شہری ہلاکتوں کی شرح چھ فیصد رہی اور مجموعی طور پر سن 2017 میں ایسے فضائی حملوں میں 295 عام شہری ہلاک ہوئے۔
طالبان کا ’امریکی عوام کے نام کھلا خط‘
حالیہ عرصے کے دوران طالبان نے پے در پے حملوں کی ذمہ داری قبول کی جس کے بعد واشنگٹن اور کابل حکومتیں طالبان سے امن مذاکرات نہ کرنے کا اعلان کر چکی ہیں۔ طالبان نے اس کے جواب میں بدھ چودہ فروری کو امریکی عوام کے نام ایک کھلا خط لکھا۔ تین ہزار الفاظ پر مشتمل اس کھلے خط میں ’امریکی عوام، سماجی اداروں اور امن پسند ارکان پارلیمان‘ کو مخاطب کرتے ہوئے افغان طالبان نے امن مذاکرات کی پیش کش کی ہے۔
اس خط میں طالبان نے یہ بھی لکھا ہے کہ ان کی تحریک افغانستان میں ’ایسی حکومت قائم کرے گی جس میں خواتین سمیت سب کو تعلیم حاصل کرنے کا حق حاصل ہو گا‘۔