1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’’ ایک اور دکھی ماں، ایک اور بیوہ، ایک مرتبہ پھر بچے یتیم‘‘

بینش جاوید
11 جولائی 2018

پشاور میں عوامی نیشنل پارٹی کی انتخابی ریلی پر ہونے والے خودکش حملے کی کئی حلقوں کی جانب سے مذمت کی گئی ہے۔ اس حملے میں ہارون بلور بھی ہلاک ہوئے ہیں۔ ان کا خاندان پہلے بھی دہشت گردوں کے نشانے پر رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/31Fs4
Pakistan Peschawar Anschlag bei Wahlveranstaltung
تصویر: picture-alliance/AA/M. Asad

پشاور میں منگل کو رات گئے کیے گئے اس بم حملے میں اے این پی کے  رہنما اور انتخابی امیدوار ہارون بلور بھی مارے گئے۔ پولیس کے مطابق اس حملے میں ساٹھ سے زائد افراد زخمی بھی ہوئے، جن میں سے پینتیس ابھی تک پشاور کے مختلف ہسپتالوں میں زیر علاج ہیں۔

پاکستان کی سیاسی شخصیات ، آرمی چیف اور دیگرافراد کی جانب سے اس حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کی گئی ہے۔

وکیل اور تجزیہ کار بابر ستار نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر لکھا،’’ ہم ایک محدود نطر رکھنے والی ریاست ہیں، جو ناکام پالیسیوں پر کار بند ہے، جو مختلف آراء کے حوالے سے برداشت کی ترویج نہیں کرتی۔ لیکن کوئی بھی ان غلطیوں کی نشان دہی کرے تو اسے غدار کہا جاتا ہے، تجھ کو کتنوں کا لہو چاہیے اے ارض وطن۔‘‘

صحافی طحہٰ صدیقی نے لکھا،’’میں نے 2013 میں بھی ہارون بلور کو انتخابی مہم چلاتے دیکھا، جب کچھ روز قبل ہی ان کے والد کو بھی دہشت گردوں نے ہلاک کر دیا تھا۔ وہ اس وقت پشاور کی گلیوں میں لوگوں سے مل رہے تھے۔ آج وہ یہی کرتے مارے گئے۔‘‘

محمد تقی نے لکھا،’’ اگر کسی شہر کو نشان حیدر دیا جاسکتا تو وہ پشاور کو ملتا، پشاور نے بہت قربانیاں دی ہیں۔‘‘

عبدالمجید خان مروت نے لکھا،’’ ایک اور دکھی ماں، ایک اور بیوہ، ایک مرتبہ پھر بچے یتیم۔  یہاں رات کے بعد اجالے کی کوئی امید نہیں۔‘‘

صحافی مہرین زہرہ ملک نے لکھا،’’ ایک خاندان کی اتنی قربانیاں۔ بشیر بلور کو 2012 میں ایک خود کش حملے میں مار دیا گیا، ان کے بھائی غلام بلور کے اکلوتے بیٹے شبیر بلور 1997 میں مارے گئے۔ آج ہارون بلور بھی مارے گئے۔‘‘

ٹوئٹر کے ایک اور صارف عمران خان نے لکھا،’’ہماری موت کو قربانی مت کہو، ہم مظلوم ہیں، ہم پر یلغار ہو رہی ہے۔‘‘

صحافی احمد نورانی نے لکھا،’’جب پوری پختون قوم زخموں سے چور چور تھی تو ایسے میں راؤ انوار کو رہا کرنا اور پھر  ہارون بلور کا شہید ہونا ناقابل فراموش واقعات ہیں، جو آئندہ کے پاکستان کی سمت متعین کریں گے۔‘‘

صحافی اویس توحید نے لکھا،’’ باچا خان کے تشدد مخالف فلسفے کو اپنا کر ہارون بلور کے بیٹے دانیال بلور نے پارٹی کے جذباتی کارکنان کو صبر کرنے اور پر امن رہنے کی تلقین کی ہے۔‘‘

یہ حملہ پچیس جولائی کے عام انتخابات سے قبل پاکستان میں اب تک کی جانے والی سب سے بڑی دہشت گردانہ کارروائی ہے، جس کی ذمے داری مقامی طالبان عسکریت پسندوں نے قبول کر لی ہے۔