1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایٹمی حملوں میں بچ جانے والے بتدریج ختم ہوتے ہوئے

افسر اعوان28 اپریل 2015

ان لوگوں کے ساتھ ایک جوہری حملہ جو نہ کر سکا اب وہ کام بڑھتی عمر کر رہی ہے۔ امریکا کی طرف سے جاپانی شہروں پر ایٹمی حملوں میں بچ جانے والے افراد کی تعداد اب بہت کم رہ گئی ہے اور وہ بتدریج موت کے منہ میں جا رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1FGRM
تصویر: picture-alliance/dpa

جوہری ہتیھار رکھنے والے ممالک اس ہفتے جوہری اسلحے کی تخفیف کے ایک اہم معاہدے پر بات چیت کر رہے ہیں۔ ایسے میں جوہری حملے میں بچ جانے والوں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ شاید یہ ان کی زندگی کا آخری موقع ہو کہ وہ ایٹمی حملے کی تباہ کاریوں کا آنکھوں دیکھا حال لوگوں تک پہنچا سکیں تاکہ جوہری عدم پھیلاؤ کے معاملے کو آگے بڑھایا جا سکے۔

’نیوکلیئر نان پرولیفریشن ٹریٹی‘ یا NPT پر جائزہ کانفرنس ہر پانچ برس بعد منعقد ہوتی ہے۔ جوہری حملے میں بچ جانے والوں کو ہیباکوشا کا نام دیا جاتا ہے اور اس وقت ایسے افراد کی اوسط عمر 80 برس ہے۔

اتوار کے روز ہزاروں افراد نے نیویارک کے علاقے مین ہیٹن میں جوہری ہتھیاروں کے خلاف ریلی میں شرکت کی۔ اس ریلی کی قیادت جوہری حملے میں بچ جانے والی تین خواتین نے جنہوں نے وہیل چیئر پر ڈیڑھ میل طویل اس راستے کو سست رفتاری سے طے کیا۔ ایسے مقبول ترین افراد میں شمار ہونے والے 86 سالہ سومیتیرو تانی گوچی تاہم اس ریلی میں شرکت نہ کر سکے لیکن انتہائی نحیف اور خاموش سومیتیرو اپنی وہیل چیئر پر بیٹھے اس مارچ کو روانہ ہوتے دیکھتے رہے۔

چھ اگست 1945ء کو ناگاساکی پر گرائے جانے والے ایٹم بم کے نتیجے میں 70 ہزار افراد ہلاک ہوئے تھے
چھ اگست 1945ء کو ناگاساکی پر گرائے جانے والے ایٹم بم کے نتیجے میں 70 ہزار افراد ہلاک ہوئے تھےتصویر: AP

ہیروشیما ایٹم بم حملے میں بچ جانے والی 83 سال سیٹسوکو تھرلو کا، جنہوں نے وہیل چیئر پر بیٹھ کر مارچ میں شرکت کی، بعد ازاں گوچی کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’میں نے جب انہیں دیکھا تو حیران رہ گئی۔ وہ بہت زیادہ کمزور ہو گئے ہیں۔‘‘

تھرلو کی عمر اس وقت 13 برس تھی جب امریکا کی طرف سے ہیروشیما پر ایٹم بم گرایا گیا جس کے نتیجے میں 140,000 ہزار افراد ہلاک ہوئے۔ تھرلو کے مطابق، ’’فاصلے پر موجود لوگوں نے ایٹمی چھتری کو فضا میں بلند ہوتے دیکھا مگر میں یہ بادل نہ دیکھ سکی کیونکہ میں اس کے اندر تھی۔‘‘

تانی گوچی اس وقت 16 برس کے تھے اور ناگا ساکی میں ایٹم بم گرائے جانے کے مقام سے قریب ایک کلومیٹر دور سائیکل کی سواری کر رہے تھے۔ ناگاساکی پر جوہری حملے کے نتیجے میں 70 ہزار افراد ہلاک ہوئے تھے۔ دھماکےکی شدت اور تابکاری کے باعث ان کی کمر بری طرح طور پر جل گئی تھی اور وہ اگلے ساڑھے تین برس تک پیٹ کے بل ہی سو پاتے تھے۔ ان کے دوستوں کا کہنا ہے کہ ابھی بھی ان کی کمر پر زخم ہے۔

اختتام ہفتہ پر نیویارک میں جوہری اسلحے میں تخفیف کے حامیوں کے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے تانی گوچی کا کہنا تھا، ’’جوہری اسلحہ شیطان کا ہتھیار ہے۔ یہ نہ تو انسانوں کو جینے دے گا اور نہ ہی انہیں انسانوں کی طرح مرنے دے گا۔‘‘

نیوکلیئر کانفرنس کے لیے تین درجن کے قریب ہیباکوشا نیویارک پہنچے ہیں تاہم ’امیرکن فرینڈز سروس کمیٹی‘ کے تخفیف اسلحہ سے متعلق کوآرڈینیٹر جوزیف گیرسن کا کہنا ہے کہ یہ شاید آخری مرتبہ ہے کہ جوہری حملوں میں بچ جانے والوں کی اتنی تعداد کانفرنس کے موقع پر پہنچی ہے۔