این آر او : عدالت عظمیٰ میں سماعت
7 دسمبر 2009پاکستان میں قومی مصالحتی آرڈیننس این آر او ایک مرتبہ پھر موضوع بحث بنا ہوا ہے۔ عدالت عظمیٰ نے پاکستانی پارلیمان کو یہ ذمہ داری سونپی تھی کہ وہ اس آرڈیننس کو قانونی تحفظ فراہم کرے بصورت دیگر یہ غیر موثر ہو جائے گا۔ مقررہ مدت کے اندر پارلیمان سے منظوری حاصل نہ کرپانے والے این آر او کے خلاف، اب سترہ رکنی لارجر بینچ ان پٹیشنز کی سماعت کر رہا ہے، جن کے مطابق کرپشن کے چارجزکے تحت متعدد سیاستدانوں سمیت کئی اہم شخصیات کو عدالت کے کٹہرے میں جواب دہ ہونا ہڑے گا۔
ایسا لگتا ہے کہ پاکستانی عدالت عظمیٰ ملک میں سیاسی بحران پیدا ہونے اور اداروں کے درمیان ٹکراؤ کی کیفیت سے بچنا چاہتی ہے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ قومی مصالحتی آرڈیننس کے مستقبل کے حوالے سے فیصلہ پارلیمان کے سپرد کر دیا گیا تھا۔ تاہم اس آرڈیننس سے سب سے زیادہ فائدہ اٹھانے والی پاکستان کی حکمران جماعت پیپلز پارٹی تمام تر کوششوں کے باوجود پارلیمان سے اس آرڈیننس کو قانونی تحفظ دلانے میں ناکام رہی۔
سنیئر پاکستانی تجزیہ کار نصرت جاوید نے ڈوئچے ویلے سے اپنی خصوصی گفتگو میں کہا کہ اس وقت عوامی رائے یہی کہتی ہے کہ بدعنوانی کے ملزموں کے کیسز آرڈیننس کے ذریعے ختم کرنے کی بجائے ایسے افراد کو عدالت کے ذریعے ان الزامات سے بری ہونا چاہئے۔
نصرت جاوید کے مطابق ایک طرف تو پاکستان پیپلز پارٹی کے خلاف پروپیگینڈا مہم بھی زوروں پر ہے تاہم یہ بات اپنی جگہ بڑی معنی خیز ہے کہ ہر بار اسی جماعت پر کرپشن کے چارجز کیوں لگتے ہیں۔
ان آئینی پٹیشن کی سماعت کے دوران چیف جسٹس افتخارچوہدری نے کہا کہ این آر او سے متعلق کسی دوسرے ملک کو مثال بنا کر پیش نہیں کیا جاسکتا کیونکہ ا س آرڈیننش کا جائزہ پاکستانی آئین کے تحت لیا جائے گا۔ این آر او کے خلاف کیس کے ذریعے اہم سیاستدانوں اور حکومتی وزراء سمیت اس آرڈیننس سے فائدہ اٹھانے والے سینکڑوں افراد کے مستقبل کا فیصلہ ہوگا۔
سپریم کورٹ نے اکتیس جولائی دوہزار سات کے فیصلے میں متنازعہ قومی مصالحتی آرڈیننس کو ایک سو بیس دن میں پارلیمنٹ سے منظور کرانے کا حکم دیا تھا تاہم اپوزیشن اور اتحادیوں کے شدید دباوٴ کی وجہ سے پیپلز پارٹی کی قیادت این آر او کو پارلیمنٹ سے منظور نہ کرا سکی اور یوں اٹھائیس نومبر کو ختم ہونے والی مہلت کے بعد این آر او غیر موثر ہو گیا۔
رپورٹ : عاطف توقیر
ادارت : کشور مصطفیٰ