1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایشیائی پکوان ’انضمام کا ایک لذیذ انداز ‘

29 اپریل 2018

تارکين وطن کے ليے يورپی ملک ليتھوانيا اولين ترجيح نہيں اور يہ بھی حقيقت ہے کہ وہاں پہنچنے والے مہاجرين کو مشکلات کا سامنا ہے تاہم چند ايک نے وہاں ايک نئی زندگی کی شروعات کر ہی ڈالی اور اب مطمئن بھی دکھائی ديتے ہيں۔

https://p.dw.com/p/2wrgv
Kochen mit syrischen Flüchtlingen  Kibbeh
تصویر: picture alliance/dpa/G.Fischer

ليتھوانيا کے دارالحکومت ولنس ميں ’ايشين کيوزين‘ نامی ايک نئے ريستوران ميں ايک نوجوان مينو کارڈ کو ديکھتے ہوئے سوال کرتا ہے، ’’يہ مانتی کيا ہے؟‘‘ ريستوان کا مالک اور باورچی سليمان جواباً کہتا ہے ، ’’خود آزما کر ديکھ لو۔‘‘ مانتی قيمے کے گول گول پکوڑے نما پکوان کو کہا جاتا ہے۔ سليمان کا تعلق تاجکستان سے ہے اور اس کے ليے يہ بنانا کافی آسان ہے۔ اتنے ميں سليمان کا ساتھی محمد بھی صارف کے پاس آن پہنچتا ہے اور اس سے کہتا ہے کہ وہ مانتی آزمائے ضرور۔ پھر وہ بتاتا ہے کہ مانتی در اصل اسے افغان دارالحکومت کابل کی ياد دلاتا ہے، جسے وہ پانج برس قبل چھوڑ آيا تھا۔

’ايشين کيوزين‘ ولنس ميں ايک چھوٹے سے ريستوران کا نام ہے۔ شہر کے مرکزی علاقے ميں موجود يہ چھوٹی سی جگہ بڑے ہی منفرد کھانوں کا مرکز ہے۔ محمد کہتا ہے، ’’اگر لوگ مک ڈونلڈز وغيرہ جائيں تو وہ پانچ سے چھ يورو ميں کھانا کھا ليتے ہيں۔ يہاں انہيں انہی پيسوں ميں سموسوں، پلاؤ، سوپ، مانتی جیسے منفرد کھانے مليں گے۔‘‘ سليمان اور محمد کے ليے ’ايشين کيوزين‘ صرف کاروبار نہيں بل کہ ايک نئے ملک ميں سياسی پناہ ملنے کے بعد ايک نئی زندگی اور مقامی لوگوں کے قريب آنے کی ايک کوشش بھی ہے۔

محمد نے جب پانچ برس قبل افغانستان سے ہجرت کی تھی ، تو اس وقت اس کی عمر قريب سولہ سال تھی۔ اس نے بتايا کہ در اصل وہ سويڈن اپنے رشتہ داروں کے پاس جانا چاہتا تھا تاہم اسے لتھوينيا کی سرحد پر پکڑ ليا گيا اور پھر ڈبلن ريگوليشن کے تحت اسے اسی ملک ميں پناہ کی درخواست دينی پڑی۔ سليمان نے تاجکستان دو دہائيوں قبل چھوڑا تھا۔ وہ کہتا ہے کہ اس کے آبائی ملک ميں آزادی اظہار رائے نہ ہونے کے برابر ہے اور وہاں سياسی مخالفين کو نشانہ بنايا جاتا ہے۔

سليمان اور محمد ہ چند ہی مہاجرين ہيں، جنہوں نے لتھوينيا ميں پناہ لے رکھی ہے۔ يورپی يونين کی اکسيم کے تحت ليتھوانيا کو 1,077 تارکين وطن کو پناہ دينی تھی۔ وہاں 468 مہاجرين کو بسايا گيا ليکن پناہ ملتے ہی وہاں سے 388 ديگر ممالک منتقل ہو گئے۔ تارکين وطن کے بقول ليتھوانيا بالکل ہی کثير الثقافتی ملک نہيں اور اسی سبب انہيں وہاں قيام ميں مشکل پيش آتی ہے۔

تارکین وطن خواتین کا انضمام، کھیل اور ورک آؤٹ کے ساتھ

ع س / ع ا، انفو مائگرينٹس