1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایشیا کے لیے امریکا کا عزم اور شکوک وشبہات

عاطف بلوچ9 اکتوبر 2013

امریکی صدر باراک اوباما کی طرف سے جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کا دورہ منسوخ کرنے کی وجہ سے اس خطے کے لیے واشنگٹن کے عزائم کے بارے میں کچھ شکوک وشبہات پیدا ہو گئے ہیں۔

https://p.dw.com/p/19wdi
تصویر: Reuters

گزشتہ کچھ سالوں میں یہ تیسری مرتبہ ہوا ہے کہ اوباما نے ملک کے داخلی مسائل کی وجہ سے جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کا دورہ منسوخ کیا ہے۔ ناقدین کے بقول اس صورتحال میں بحر الکاہل کے علاقوں میں چین اپنے اثرورسوخ کو بڑھانے میں کامیاب ہو سکتا ہے۔ یہ طے تھا کہ امریکی صدر باراک اوباما بحرالکاہل کے علاقوں میں سیاسی، اقتصادی اور سکیورٹی سے متعلق معاملات میں اپنا تعاون بڑھانے کے عزم کی یقین دہانی کے لیے جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کا دورہ کریں گے۔

تاہم داخلی سیاسی وجوہات کی بنا پر اوباما کو اپنا یہ اہم دورہ منسوخ کرنا پڑ گیا۔ طے شدہ پروگرام کے تحت اوباما نے چھ تا بارہ اکتوبر کے دوران انڈونیشیا، ملائشیا، برونائی اور فلپائن میں ایپک، آسیان اور ای اے ایس جیسے اہم سربراہی اجلاسوں میں شرکت کے علاوہ متوقع طور پر ان ممالک کے رہنماؤں کے ساتھ متعدد ملاقاتیں بھی کرنا تھیں۔

APEC Gipfel Indonesien Bali Gruppenbild Gruppenfoto
ایپک اجلاس میں شامل رہنماؤں کی گروپ فوٹوتصویر: Reuters

اس صورتحال میں متعدد علاقائی رہنما امریکی صدر کی طرف سے اس دورے کو منسوخ کرنے کی وجوہات سمجھتے ہیں تاہم انڈونیشیا، برونائی اور سنگاپور نے اس حوالے سے مایوسی کا اظہار بھی کیا ہے۔ سنگاپور کے وزیر اعظم لی شیان لونگ نے ایپک سمٹ میں شرکت کے لیے بالی پہنچنے پر کہا کہ وہ ایسے امریکی صدر کو ترجیح دیتے ہیں جو اپنے ملک کے داخلی مسائل میں الجھے ہونے کے بجائے اپنی بین الاقوامی ذمہ داریاں نبھانے کے لیے اس سمٹ میں شریک ہو سکتا۔

آسیان۔ ’امریکی مفادات کے لیے اہم‘

آسیان کی سربراہی سمٹ میں امریکی صدر اوباما کی عدم موجودگی پر ملا جلا ردعمل ظاہر کیا جا رہا ہے۔ کچھ ناقدین کے بقول واشنگٹن انتظامیہ ایشیا کے لیے اپنی طویل المدتی پالیسی میں تسلسل رکھنے میں کامیاب رہے گی۔ امریکی حکومت کے اعدادوشمار کے مطابق جنوب مشرقی ایشیائی اقوام کی تنظیم (آسیان) امریکی برآمدات کی چوتھی سب سے بڑی منڈی ہے۔2009ء میں اس خطے میں تجارت کا حجم 145 بلین ڈالر تھا جو 2012ء میں بڑھ کر 198 بلین ڈالر تک پہنچ چکا ہے۔

اسی طرح امریکا جنوب مشرقی ایشیائی ممالک میں سرمایا کاری کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔ واشنگٹن میں قائم سینٹر فار اسٹریٹیجک اینڈ انٹرنیشنل اسٹیڈیز CSIS کے مطابق امریکا نے اس خطے میں 165 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے، جو چین میں کی جانے والی سرمایہ کاری سے تین گنا جب کہ بھارت میں کی جانے والی سرمایہ کاری سے دس گنا زیادہ ہے۔

چین سے بڑھتا ہوا مقابلہ

ناقدین کے بقول امریکی صدر اوباماکے دورہ ء ایشیا کی منسوخی سے شاید چین کو فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ اقتصادی امور پر نظر رکھنے والی تجزیاتی فرم IHS سے منسلک ماہر اقتصادیات راجیو بسواس نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’’ امریکی صدر باراک اوباما کی عدم موجودگی کی وجہ سے چینی صدر شی جن پنگ کو یہ موقع ملا ہے کہ وہ بحرالکاہل کے علاقوں میں بیجنگ حکومت کے اقتصادی اور سیاسی کردار کو مؤثر طریقے سے واضح کر سکیں۔‘‘

ASEAN Gruppenfoto 09.10.2013
آسیان سمٹ میں شریک رہنماتصویر: Reuters

یہ امر اہم ہے کہ چین ایشیا کے متعدد ممالک کا سب سے بڑا کمرشل پارٹنر بن چکا ہے اور ایسے ممالک میں بیجنگ کی براہ راست سرمایہ کاری میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ بسواس کے بقول 2002 ء کے دوران چین اور آسیان کے مابین باہمی تجارت کا حجم پچپن بلین ڈالر تھا جو 2012ء میں بڑھ کر 400 بلین ڈالر تک پہنچ چکا ہے۔

دوسری طرف وسائل سے مالا مال بحیرہ جنوبی چین پر بیجنگ حکومت کے دعوؤں کی وجہ سے چین اور آسیان کے کئی رکن ممالک کے درمیان علاقائی تنازعات بھی جنم لے چکے ہیں۔ امریکا کی Northern Illinoi یونیورسٹی میں شعبہ سیاسیات سے وابستہ ایسوسی ایٹ پروفیسر مائیکل بوہلر کہتے ہیں کہ انہی تنازعات کی وجہ سے آسیان کے متعدد رکن ممالک کی خواہش ہے کہ طاقت کے توازن کو برقرار رکھنے کے لیے امریکا اپنا کردار ادا کرے۔ راجیو بسواس بھی اسی خیال کی تائید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس خاص صورتحال میں جنوب مشرقی ایشیائی ممالک میں سے بیشتر امریکا کو خوش آمدید کہیں گے، جس کے نتیجے میں اس ریجن میں امریکا کا اثرورسوخ بڑھے گا۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید