1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایشیا کی بلند ترین صلیب، کراچی کی ’امید‘

عنبرین فاطمہ، کراچی20 مئی 2015

کراچی کی ایک مرکزی شاہراہ سے گزرتے ہوئے مسیحی برادری کے قبرستان کے باہر ایک زیر تعمیر بلند و بالا صلیب کو کراچی کے موجودہ حالات میں امید کی ایک کرن قرار دیا جا رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/1FTAu
Pakistan das höchste Kreuz Asiens
اس صلیب کی اونچائی 140 فٹ اور اس کا پھیلاؤ 42 فٹ ہےتصویر: DW/Unbreen Fatima

شاہراہ فیصل کراچی شہر کی مصروف ترین سڑک ہے، جس پر واقع گورا قبرستان شہر میں مسیحی برادری کا سب سے قدیم قبرستان ہے۔ اس قبرستان کے صدر دروازے پر ایشیا کی سب سے اونچی صلیب تعمیر کی جا رہی ہے، جس کی اونچائی 140 فٹ اور اس کا پھیلاؤ 42 فٹ ہے۔

ایک ایسے ملک میں، جہاں بسنے والی اقلیتوں کے تحفظ کے حوالے سے دنیا میں منفی تاثر پایا جاتا ہے اور ایک ایسے شہر میں، جو سکیورٹی کے حوالے سے کئی عشروں سے بحران کا شکار ہے، اس طرح کی صلیب کی تعمیر کا خیال کیسے آیا؟ اس کے جواب میں منصوبے کے لیے سرمایہ فراہم کرنے والی سماجی اور کاروباری شخصیت پرویز ہینری گِل کا کہنا ہے، ''اقلیتوں کے حوالے سے پاکستان کا امیج کافی پریشان کن ہے۔ اس صلیب کی مدد سے ہم دنیا کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ یہاں اچھے لوگ بھی موجود ہیں۔‘‘

پرویز گِل کے مطابق ملک میں اقلیتوں کو مسائل کا سامنا ہے، جس کی وجہ سے اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے یہاں سے نقل مکانی کر رہے ہیں یا اس کے بارے میں سوچتے ہیں، ''لیکن اس صلیب کی تعمیر سے ہم یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ پاکستان میں اقلیتوں پر صرف حملے ہی نہیں ہوتے رہتے۔‘‘

پرویز گِل کے مطابق انہیں یقین ہے کہ اس صلیب کی تعمیر کے بعد وہ حالات سے دلبرداشتہ ہو کر ملک چھوڑنے کا سوچنے والے مسیحیوں میں حالات کی بہتری کی امید کو جگا سکیں گے۔ وہ کہتے ہیں، ''میں چاہتا ہوں کہ مسیحی اس صلیب کو دیکھیں اور ملک نہ چھوڑنے کا فیصلہ کریں۔ یہ خدا کا نشان ہے۔ جو بھی اس صلیب کو دیکھے گا، وہ دکھوں سے آزاد ہو جائے گا۔‘‘

اس صلیب کی تعمیر کا کام مکمل ہونے والا ہے تاہم ایک مسلم ملک میں اس کی تعمیر آسان نہیں تھی۔ تعمیراتی کام کی نگرانی بھی ہینری گِل خود ہی کر رہے ہیں۔ انہوں نے منصوبے کے حوالے سے پیش آنے والی مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے بتایا، ''جب ہم نے اس کی تعمیر کی ابتدا کی تو مزدوروں کو نہیں بتایا تھا کہ وہ کیا بنا رہے ہیں لیکن جیسے جیسے وقت گزرتا گیا اور صلیب کی شکل واضح ہونے لگی، تو بعض مزدوروں نے کام چھوڑ دیا اور بعض نے ہچکچاہٹ کا اظہار کیا تاہم اب اس کی تعمیر میں مسیحی اور مسلم مزدور شانہ بشانہ کام کر رہے ہیں۔‘‘

اس صلیب کی تعمیر پر کام کرنے والے مزدوروں نے بتایا کہ وہ اپنی مرضی سے اس منصوبے پر کام کر رہے ہیں۔ قبرستان میں صلیب یا اس کی تعمیر پر مامور افراد کے لیے سکیورٹی کا کوئی انتظام نظر نہیں آیا۔ تاہم وہاں کام کرنے والے مزدوروں نے بتایا کہ انہیں سکیورٹی کے حوالے سے کوئی پریشانی نہیں پیش آئی اور اب تک بغیر کسی دھمکی یا ڈر کے وہ اس کام کوجلد از جلد مکمل کرنے میں مصروف ہیں۔

Pakistan das höchste Kreuz Asiens
توقع کی جا رہی ہے کہ اس صلیب کی تعمیر کا کام اگلے تین مہینے کے اندر اندر مکمل ہو جائے گاتصویر: DW/Unbreen Fatima

پرویز ہینری گِل نے اس بات کا اقرار کیا کہ صلیب کی تعمیر سے گورا قبرستان کی سکیورٹی کو خطرہ بھی لاحق ہو سکتا ہے مگر انہیں اس بات کا یقین ہے کہ صلیب کی تعمیر خدا کا کام ہے اور وہی اپنے کام کی حفاظت کرے گا۔

دوسری طرف زمین میں 20 فٹ گہرائی رکھنے والی کنکریٹ اور اسٹیل سے بھری اس صلیب کو نقصان پہنچانے کی اگر کوئی کوشش بھی کرے گا تو ممکنہ طور پر کامیاب نہیں ہو سکے گا۔ پرویز گِل کے مطابق اس صلیب پر کام آئندہ تین ماہ میں مکمل کر لیا جائے گا۔

اپنے پیاروں کی قبروں پر آنے والے چند مسیحی افراد نے بتایا کہ وہ اس کی تعمیر مکمل ہونے کا بے چینی سے انتظار کر رہے ہیں۔ انہوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ یہ صلیب شہر میں بسنے والے مسیحیوں پر حفاظت کا مقدس سایہ کرے گی اور جس طرح اس کی تعمیر میں مسلمان اور مسیحی ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں، مستقبل میں بھی دونوں مذاہب کے ماننے والے امن کے ساتھ ایک دوسرے سے مل کر شہر کی بہتری کے لیے اپنا کردار ادا کرتے رہیں گے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید