ایشیا: الیکٹرانک کچرے میں حیران کن اضافہ
15 جنوری 2017اقوام متحدہ کی یونیورسٹی کی طرف سے جاری ہونے والی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ پانچ برسوں کے دوران ایشیا میں پیدا ہونے والے الیکڑانک کچرے میں تریسٹھ فیصد اضافہ ہو گیا ہے۔
اس ادارے کی طرف سے خبردار کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اس خطے کے ممالک کو ری سائیکلنگ اور ڈسپوزل طریقوں کو فوری بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ رپورٹ کے شریک مصنف اور اقوام متحدہ یونیورسٹی کے پائیدار سائیکلز پروگرام کے سربراہ روڈیگر کوئر کا کہنا تھا، ’’ بہت سے ممالک میں پہلے ہی سے ای ویسٹ مینجمنٹ کے لئے بنیادی ڈھانچے کی کمی ہے اور الیکڑانک کچرے کی بڑھتی ہوئی مقدار باعث تشویش ہے۔‘‘
گزشتہ کئی برسوں سے چین اور کئی دوسرے ممالک ترقی پذیر ممالک سے آنے والے الیکڑانک کچرے کے لیے ڈمپنگ یارڈ کا کام دیتے رہے ہیں اور ان کی ری سائیکلنگ اکثر ایسی فیکڑیوں کی میں جاتی رہی ہے جہاں مناسب حفاظتی اقدامات نہ ہونے کے برابر ہیں جبکہ اکثر اوقات الیکڑانک کچرے کو کھلی فضا میں ہی آگ لگا دی جاتی ہے۔
رپورٹ کے مطابق اب مسئلہ یہ ہے کہ خود ان ممالک کے باسیوں نے الیکڑانک اشیاء کا استعمال تیزی سے شروع کر دیا ہے۔ ان ممالک میں فونز، ٹیبلیٹس، ریفریجریٹرز، پرسنل کمپیوٹر اور ٹیلی ویژن خریدنے کے رجحان میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔
رپورٹ کے مطابق ایشیا میں سب سے زیادہ الیکڑانک کچرا چین میں پیدا ہو رہا ہے جبکہ ہانگ کانگ کو اس لحاظ سے بدترین درجہ دیا گیا ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق سن دو ہزار پندرہ میں ہانگ کانگ ہر ایک فرد تقریبا بائیس کلوگرام الیکڑانک کچرے کا باعث بنا ہے۔
اسی طرح سنگاپور تائیوان بھی آگے آگے ہیں۔ فی کلو کی اوسط شرح کے لحاظ سے کمبوڈیا، ویت نام اور فلپائن ایسے ممالک ہیں، جہاں سب سے کم الیکڑانک کچرا پیدا ہو رہا ہے۔
رپورٹ کے مطابق بہت سے ممالک میں ایسا کوڑا کباڑ غیرمناسب اور غیرقانونی طریقے سے زیر زمین میں دبایا جا رہا ہے، جس کے نہ صرف ماحول بلکہ انسانی صحت پر بھی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
جہاں جہاں الیکڑانک کوڑے کو زیر زمین دبایا جا رہا ہے، ان کے علاقوں کے بچوں کے خون میں لیڈ جیسے عناصر کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے اور وہ بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں۔