1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایردوآن کے لیے لمحہ فکریہ؟

1 اپریل 2019

ترکی میں اتوار کے روز ہوئے علاقائی انتخابات میں عوام کی نظریں دونوں اہم ترین شہروں انقرہ اور استنبول کے نتائج پر لگی ہوئی ہیں۔ انقرہ میں صدر ایردوآن کی جماعت کو شکست کا سامنا ہے جبکہ استنبول کی صورتحال ابھی تک واضح نہیں۔

https://p.dw.com/p/3Fzyk
Türkei: Ankara: Recep Tayyip Erdogan
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Unal

اتوار 31 مارچ کو ہوئے علاقائی انتخابات میں حکمران جماعت اور حزب اختلاف دونوں دعویٰ کر رہی ہیں کہ یورپ اور ایشیا کے سنگم پر واقع شہر استنبول میں انہیں کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ تاہم ابھی تک ووٹوں کی گنتی مکمل نہیں ہو سکی ہے۔

سرکاری ذرائع نے بتایا ہے کہ ملک بھر سے حاصل ہونے والے ابتدائی نتائج کے  مطابق (اے کے پی) کو 48 فیصد ووٹ ملے ہیں جبکہ حزب اختلاف کی ریپبلکن پیپلز پارٹی (سی ایچ پی) کو ملنے والے ووٹوں کی تعداد 31 فیصد ہے۔ انقرہ میں حزب اختلاف کے امیدوارکی کامیابی پر حکمران جماعت کی جانب سے ابھی تک کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا ہے۔

Türkei, Istanbul: Ekrem Imamoglu
تصویر: picture-alliance/AA/O. Akkanat

ترک صدر رجب طیب ایردوآن کی جسٹس اینڈ ڈیویلمپمنٹ پارٹی( اے کے پی) نے دعویٰ کیا ہے کہ علاقائی انتخابات میں انہیں کامیابی حاصل ہوئی ہے اور تقریباً سولہ بڑے شہروں میں میئر کی ذمہ داریاں ان کے امیدوار نبھائیں گے۔ 2014ء میں ہوئے گزشتہ انتخابات میں اٹھارہ شہروں میں ’اے کے پی‘ کے میئر منتخب ہوئے تھے۔

استنبول میں ’اے کے پی‘ کے امیدوار بن علی یلدرم نے اعلان کیا ہے کہ انہیں چار ہزار ووٹوں کی برتری کا سامنا ہے۔ دوسری جانب سی ایچ پی کے رہنما اکرام اماموگلو نے بھی استنبول میں کامیابی کا دعویٰ کیا ہے۔

امامو گلو نے ووٹوں کی گنتی مکمل ہونے سے قبل صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے اے کے پی پر انتخابی عمل میں دھاندلی کا الزام عائد کیا تھا تاہم بعد ازاں اتوار کی شب انہوں  نے کہا کہ نتائج کو دیکھتے ہوئے وہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ استنبول میں سی ایچ پی کو ہی برتری حاصل ہے۔

ترکی میں ہونے والے علاقائی انتخابات کو صدر رجب طیب ایردوآن اور ان کی حکومت کی مقبولیت کا ایک امتحان بھی قرار دیا جا رہا تھا۔ ترکی آج کل شدید اقتصادی مسائل کا شکار ہے اور اس کی کرنسی لیرا کی قدر مییں شدید کمی آ چکی ہے۔

ترکی میں آئینی ریفرنڈم