1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایرانی پارلیمان نے نئی کابینہ کے تمام ناموں کی منظوری دے دی

22 اگست 2024

گزشتہ بیس سالوں کے دوران ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ کوئی رہنما اپنی کابینہ کے لیے تجویز کردہ تمام ناموں کی منظوری لینے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ اس منظوری کے عمل کو صدر مسعود پزشکیان کی پہلی کامیابی قرار دیا جا رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/4jmy9
اپنی کابینہ کے نامزد تمام ارکان کی پارلیمان سے مںظوری کو صدر مسعود پزشکیان کے لیے ایک بڑی کامیابی قرار دیا جا رہا ہے
اپنی کابینہ کے نامزد تمام ارکان کی پارلیمان سے مںظوری کو صدر مسعود پزشکیان کے لیے ایک بڑی کامیابی قرار دیا جا رہا ہےتصویر: Morteza Nikoubazl/NurPhoto/picture alliance

ایران کی سخت گیر پارلیمنٹ نے بدھ کے روز اصلاح پسند صدر مسعود پزشکیان  کی تجویز کردہ کابینہ کے تمام ارکان کی منظوری دے دی۔ یہ  دو دہائیوں میں پہلا موقع تھا کہ کوئی رہنما اپنے تمام عہدیداروں کو پارلیمان کے ذریعے تعینات کرانے میں کامیاب ہوا ہے۔ 

یہ پارلیمانی منظوری طویل عرصے سے قانون ساز کی حثیت رکھنے والے پزشکیان کے لیے ابتدائی جیت کا ایک مظہر ہے پزشکیان مئی میں ہیلی کاپٹر کے ایک حادثے میں اپنے سخت گیر پیشرو ابراہیم رئیسی کی ہلاکت کے بعد ایوان صدر میں پہنچے ہیں۔

ایسا کم ہی دیکھا گیا ہے کہ ایران کی سخت گیر پارلیمان صدارتی کابینہ کے لیے نامزد کردہ تمام ارکان کے ناموں کو منظور کر لے
ایسا کم ہی دیکھا گیا ہے کہ ایران کی سخت گیر پارلیمان صدارتی کابینہ کے لیے نامزد کردہ تمام ارکان کے ناموں کو منظور کر لے تصویر: Morteza Nikoubazl/NurPhoto/picture alliance

ان کی کابینہ کے لیے تجویز کردہ تمام افراد کی منظوری سے پتہ چلتا ہے کہ پزشکیان نے متنازعہ شخصیات کا انتخاب کرنے کے بجائے ایران کی حکومت میں شامل تمام طاقت کے مراکز کے لیے قابل قبول ناموں کا انتخاب کیا۔

 اس کے بعد پزشکیان نے فوری طور پر آن لائن ایک تصویر پوسٹ کی جس میں وہ ایرانی عدلیہ کے سربراہ، ایک شیعہ عالم اور ملک کی پارلیمان کے سخت گیر اسپیکر کے ساتھ کھڑے تھے۔ ان اسپیکر کے خلاف پزیشکیان نے گزشتہ صدارتی انتخاب بھی لڑا تھا۔

ایرانی صدر نے اس تصویر کے کیپشن میں ''ایران کے لیے متفق‘‘ لکھا۔   پزشکیان کی نئی کابینہ میں شامل افراد میں 61 سالہ عباس عراقچی بھی شامل ہیں، جو ایک کیریئر ڈپلومیٹ ہیں اور وہ ایران کے نئے وزیر خارجہ ہوں گے۔

 عراقچی اس ایرانی مذاکراتی ٹیم کے رکن بھی تھے،  جس نے 2015ء میں عالمی طاقتوں کے ساتھ تہران کی جانب سے جوہری معاہدہ کیا تھا۔ اس معاہدے کے تحت ایران نے تہران پر عائد مغربی  پابندیاں ہٹانے کے بدلے  اپنے جوہری پروگرام کو محدود کر دیا تھا۔

ایران کے نئے وزیر خارجہ عباس عراقچی ایک کیریئر ڈپلومیٹ ہیں
ایران کے نئے وزیر خارجہ عباس عراقچی ایک کیریئر ڈپلومیٹ ہیںتصویر: Icana News Agency/Zumapress/picture alliance

 2018ء میں اس وقت کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکہ کو اس معاہدے سے علحیدہ کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے ایران پر مزید پابندیاں عائد کر دی تھیں۔ پزشکیان نے اپنی صدارتی مہم کے دوران کہا تھا کہ وہ اس جوہری معاہدے کو بحال کرنے کی کوشش کریں گے۔

ایرانی قانون سازوں کی طرف سے آج سب سے زیادہ حمایت حاصل کرنے والے امیدوار ملک کے نئے وزیر دفاع عزیز ناصر زادہ تھے، جنہیں پارلیمان میں موجود 288  قانون سازوں میں سے 281 نے ووٹ ڈالے۔ چیمبر کی کل 290 نشستیں ہیں۔

ناصر زادہ 2018ء سے 2021ء تک ایرانی فضائیہ کے سربراہ رہے۔ علاوہ ازیں، وزیر صحت بننے والے محمد رضا ظفرغندی کو 163 ووٹ ملے۔

نئی کابینہ میں شامل واحد خاتون، وزیر ہاؤسنگ اور شاہرات سینتالیس سالہ فرزانہ صادق ایک آرکیٹیکٹ ہیں۔ انہوں  نے 231 ووٹ حاصل کیے۔ وہ ایک دہائی سے زیادہ عرصے میں ایران کی پہلی خاتون وزیر ہیں۔

نئی کابینہ میں شامل واحد خاتون، وزیر ہاؤسنگ اور شاہرات سینتالیس سالہ فرزانہ صادق ایک آرکیٹیکٹ ہیں
نئی کابینہ میں شامل واحد خاتون، وزیر ہاؤسنگ اور شاہرات سینتالیس سالہ فرزانہ صادق ایک آرکیٹیکٹ ہیںتصویر: Icana News Agency/ZUMAPRESS.com/picture alliance

پارلیمنٹ نے پزشکیان کے مجوزہ انٹیلی جنس وزیر اسماعیل خطیب کے ساتھ ساتھ وزیر انصاف امین حسین رحیمی کی بھی منظوری دی، جو مرحوم صدر ابراہیم رئیسی کے ماتحت بھی خدمات انجام دے رہے تھے۔ پزشکیان نے رئیسی کے وزیر صنعت عباس علی آبادی کو بھی توانائی کے وزیر کے عہدے پر برقرار رکھا۔

ایران کی پارلیمنٹ میں مجوزہ وزراء کے ناموں میں سے بعض کی منظوری نہ دینا ایک روایت رہی ہے، جس کو دیکھتے ہوئے پزشکیان کی کامیابی بہت زیادہ متاثر کن ہے۔ اس سے پہلے سابق اصلاح پسند صدر محمد خاتمی وہ واحد صدر تھے، جنہوں نے 1997ء اور 2001ء میں اپنے تمام مجوزہ وزراء کے لیے پارلیمان سے  اعتماد کا ووٹ حاصل کیا تھا۔

ش ر⁄ م ا (اے پی)

ایران کا مشرق وسطیٰ کے بحران میں کلیدی کردار