ایرانی مذہبی حلقوں کی صدر احمدی نژاد پر تنقید
1 اگست 2009ایرانی شہر قم میں قائم معروف مذہبی اعلیٰ تعلیمی اور تحقیقی ادارے کے اساتذہ اور محققین کی ایک انجمن نے اپنی ویب سائٹ پر مظاہرین کی گرفتاریوں اور مختلف جیلوں میں زیر حراست افراد کے ساتھ ہونے والے سلوک کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ اہل تشعیہ ماہرین الٰہیات نے کہا ہے کہ مظاہرین اور قیدیوں کے خلاف ہونے والی ازیت رسانی کی خبریں آئے دن سامنے آ رہی ہیں۔ گزشتہ ہفتوں کے ہنگاموں میں جاں بحق ہونے والوں کی تدفین اور ان کے سوگ میں منائی جانے والی تقاریب پر بھی پابندیاں عائد ہیں اور یہ سب کچھ اسلام کے نام پر کیا جا رہا ہے۔
قم کے اساتذہ اور مذہبی شخصیات کی طرف سے اس قسم کے بیانات کے سامنے آنے سے یہ تاثر ملتا ہے کہ ایران میں اپوزیشن کو اب کسی حد تک مذہبی حلقے کی طرف سے پشت پناہی کی امید ہے۔ ایران کے سب سے بڑے روحانی پیشواء آیت اللہ خامنہ ای گرچہ صدر احمدی نژاد کو سپورٹ کرتے رہے ہیں تاہم احمدی نژاد کی طرف سے ان کے داماد اسفند یار رحیم مشائی کی بطور نائب صدر نامزدگی کی خامنہ ای کی طرف سے کھلی مخالفت کے بعد بہت سی قدامت پسند مذہبی شخصیات احمدی نژاد کے مخالف ہوتی دکھائی دے رہی ہیں۔
آیت اللہ احمد جنتی نے جمعہ کی نماز کے بعد احمدی نژاد کو ہدف تنقید بناتے ہوئے اپنے ایک بیان میں کہا کہ وزراء کی تقرری کا معاملہ حکومتی اور پارلیمانی سطح پر صلاح و مشورے کے بعد طے کیا جانا چاہئے۔ آیت اللہ احمد جنتی نے ایرانی صدر پر براہ راست تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ان کی ذاتی سیاست عوام کو مشتعل کرنے کا باعث بنی ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے ایران کی خفیہ سروس کے وزیر غلام حسین محسنی کی اچانک برطرفی پر بھی تنقید اور تشویش کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ اتنے کہنہ مشق اور قابل وزیر کی برطرفی غیر مناسب فیصلہ ہے، اس قسم کے طرز عمل کا دفاع نہیں کیا جاسکتا۔
ادھر مقامی میڈیا کے مطابق ایک روز قبل ایرانی پولیس نے دارلحکومت تہران کے بہشت زہرہ قبرستان اور دیگر مقامات سے درجنوں افراد کو گرفتار کیا تھا۔ تہران کی پولیس کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ان مظاہرین نے املاک کو نقصان پہنچایا اور شہر میں بد امنی پھیلانی کی کوششیں کی۔ پولیس کے ساتھ ان کے تصادم میں پولیس اہلکار زخمی بھی ہوئے۔