1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایرانی طالبہ کوما میں، مغربی رہنماؤں کی تہران پر کڑی تنقید

5 اکتوبر 2023

ایران کی اخلاقی پولیس نے حجاب نہ پہننے پر مبینہ طور پر ایک مرتبہ پھر ایک سولہ سالہ طالبہ کو تشدد کا نشانہ بنایا ہے، جو کوما میں ہے۔ جرمنی کی وزیر خارجہ نے اسے ’ناقابل برداشت‘ حملہ قرار دیا ہے۔

https://p.dw.com/p/4XATX
Iran Teheran Überwachungsvideo Frauen ziehen 16-jährige Armita Geravand aus Metro
تصویر: Iranian state TV/AP/picture alliance

مغربی حکومتوں نے بدھ کے روز ایرانی سکیورٹی فورسز کے مبینہ حملے کے بعد ایک نوجوان طالبہ کے کوما میں چلے جانے کے بعد تشویش کا اظہار کیا ہے۔ جرمنی کی وزیر خارجہ انالینا بیئربوک نے اس واقعے کو ''ناقابل برداشت‘‘ قرار دیا ہے جبکہ امریکہ کی طرف سے بھی تہران حکومت کو اس کا ذمہ دار ٹھہرایا جا رہا ہے۔

ایران میں خواتین کیساتھ ہونے والے ناروا سلوک پر ایک عرصے سے بحث جاری ہے اور مغربی ممالک کی طرف سے تہران حکومت پر کڑی تنقید کی جا رہی ہے۔

اس سلسلے میں انسانی حقوق کے ایک گروپ کی طرف سے ایک تازہ ترین بیان میں یہ خبر منظر عام پر آئی کہ ایران کی ایک انڈرگراؤنڈ ٹرین میں سفر کرنے والی سولہ سالہ طالبہ گاراوند اخلاقی پولیس کے تشدد کا نشانہ بننے کے سبب کوما میں چلی گئی ہے۔

چند روز قبل یہ سولہ سالہ ایرانی طالبہ زیر زمین ٹرین میں بے ہوش ہو گئی تھی۔ کرد حقوق انسانی گروپ ہینگاؤ نے منگل کے روز کہا کہ ارمیتا گاروند کو حجاب پہننے سے انکار کرنے پر ایران کی اخلاقی پولیس  کی خاتون افسران نے تشدد کا نشانہ بنایا۔

Niederlande | Proteste für Frauenrechte im Iran
مہسا امینی کیس کے بعد سے ایران میں خواتین کا شدید احتجاج اور مظاہرہ جاریتصویر: ROBIN UTRECHT/picture alliance

 حکام نے تاہم دعویٰ کیا کہ وہ لو بلڈ پریشر کی وجہ سے بے ہوش ہوئی تھی۔ ہینگاؤ کے مطابق گاروند پر اتوار کے روز تہران کے شہداء انڈر گراونڈ ریلوے اسٹیشن پر حملہ کیا گیا، جس کی وجہ سے اسے متعدد زخم آئے۔ گروپ نے بتایا کہ تہران کے فجر ہسپتال میں انتہائی سخت سکیورٹی میں ان کا علاج کیا جا رہا ہے اور متاثرہ لڑکی سے کسی کو بھی ملنے کی اجازت نہیں دی جا رہی ہے، حتی کہ اس کے اہل خانہ کو بھی نہیں۔ اس واقعے کو مہسا امینی کے واقعے کے مماثل قرار دیا جا رہا ہے۔

جرمن وزیر نے سوشل میڈیا نیٹ ورک ایکس پر ایک پیغام میں لکھا،''ایران میں ایک بار پھر ایک نوجوان عورت اپنی زندگی کی جنگ لڑ رہی ہے۔ صرف اس لیے کہ اس نے سب وے میں سفر کرتے ہوئے ہیڈ اسکارف نہیں پہنا اور اپنے بال دکھائے۔ یہ ناقابل برداشت ہے۔‘‘

اُدھر ایران کے لیے مقرر خصوصی امریکی مندوب ابرام پالے نے بھی سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر اپنے پیغام میں لکھا، ''واشنگٹنایران  کی نام نہاد اخلاقی پولیس کے حملے کی خبر سے حیران اور پریشان ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکی حکام اس خاتون کی حالت پر کڑی نظر رکھے ہوئے ہیں اور تہران حکومت کو ان زیادیتوں کا جواب دہ ٹھہرانے کے لیے ایران کی بہادر عوام کیساتھ کھڑے ہیں۔‘‘

USA Demonastration gegen Folter im Iran
ایران میں خواتین کے ساتھ بہیمانہ سلوک پر مرد بھی سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیںتصویر: Allison Bailey/NurPhoto/IMAGO Images

یہ معاملہ سوشل میڈیا پر شدید بحث کا موضوع  اُس وقت سے بن گیا جب اس واقعے کی ایک مبینہ ویڈیو گردش کرنے لگی، جس میں گاراوند کو بغیر نقاب یا ہیڈ اسکارف کے دیکھا گیا اور پولیس اہلکاروں نے اُسے باقاعدہ میٹرو کے اندر دھکیلا اور بعدازاں اسی میٹرو میں سے ایک بے ہوش یا غیر متحرک جسم کو باہر نکالتے دیکھا گیا۔

دریں اثناء ناروے میں قائم این جی او ''ایران  ہیومن رائٹس‘‘ نے ''حقائق کو مسخ کرنے اور اپنے جرائم کے شواہد کو چھپانے‘‘ کی ایک طویل تاریخ کا ایران پر الزام لگاتے ہوئے گاراوند کیس کی آزاد بین الاقوامی تحقیقات کروانے اور اس کی تفصیلات منظر عام پر لانے کا مطالبہ کیا ہے۔

یہ خواتین کی آزادی و خودمختاری کا معاملہ ہے

 اس این جی او کے ڈائریکٹر محمود امیری مقدم کا اس بارے میں کہنا تھا، ''اسلامی جمہوریہ حجاب کے لازمی ہونے کے ضوابط کی خلاف ورزیوں سے لڑنے کی آڑ میں خواتین کو ہراساں کرنے اور جبر کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔‘‘

ہینگاؤ نے بتایا کہ تہران کی رہائشی گاراوند کا تعلق ایران کے کرد آبادی والے مغربی شہر کرمان شاہ سے ہے۔ ہینگاؤ کے مطابق روزنامہ شرق کی ایک صحافی مریم لطفی نے اس واقعے کے بعد ہسپتال جانے کی کوشش کی لیکن انہیں فوری طور پر حراست میں لے لیا گیا تاہم بعد میں انہیں رہا کر دیا گیا۔

ک م/ ا ا (اے ایف پی)